روس ہندوستان کے ساتھ مضبوط دوستانہ رشتوں کی قدر کرتا ہے، صدر پوتن
ماسکو(صداۓ روس)
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھارتی صدر ڈروپدی مرمو کی جانب سے ان کی تواضعِ افتتاح میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو نئی دہلی کے ساتھ مضبوط اور دوستانہ رشتوں کی حقیقی قدر کرتا ہے، جن کی بنیاد گزشتہ صدی کے وسط میں رکھی گئی تھی۔ پوتن نے اپنی تقریر میں کہا، “ہم ہندوستان کے ساتھ مضبوط دوستی کے رشتوں کی قدر کرتے ہیں۔ ان رشتوں کی بنیاد گزشتہ صدی کے وسط میں اس وقت رکھی گئی جب ہمارا ملک ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کی فعال حمایت کر رہا تھا۔” یہ بیان 5 دسمبر 2025 کو نئی دہلی میں دیا گیا، جہاں پوتن کی دو روزہ سرکاری دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ وفد کی سطح پر بات چیت بھی ہوئی۔ روس اور ہندوستان کے درمیان رشتے 70 سال سے زائد عرصے سے قائم ہیں، جو دفاعی، توانائی، خلائی اور صنعتی شعبوں میں گہرے جڑے ہوئے ہیں۔ پوتن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سوویت یونین کے ماہرین نے ہندوستان میں بڑے صنعتی، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تعمیر میں فعال کردار ادا کیا، جبکہ خلائی پروگراموں کی ترقی میں بھی اہم شراکت کی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سوویت دور میں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی حمایت نے ان رشتوں کی بنیاد رکھی، جو آج بھی عالمی امن اور استحکام کی ستون ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارتی صدر مرمو نے بھی اس موقع پر پوتن کی میزبانی کی اور دونوں ممالک کے درمیان خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کی تعریف کی، جبکہ اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ دوستی آنے والے سالوں میں مزید پروان چڑھے گی۔
پوتن کی یہ تقریر ان کے دورۂ ہندوستان کے دوسرے اور آخری دن کی تھی، جہاں انہوں نے راج غاٹ پر مہاتما گاندھی کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور وزیر اعظم مودی کے ساتھ 23ویں ہندوستان-روس سالانہ سمٹ میں شرکت کی۔ بات چیت میں دونوں رہنماؤں نے تجارت اور سرمایہ کاری کو متنوع، متوازن اور پائیدار بنانے پر اتفاق کیا، جس کے تحت 2030 تک دوطرفہ تجارت کو 100 ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ مودی نے پوتن کو “دوست” کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “ہندوستان-روس رشتوں کی سب سے بڑی طاقت اعتماد ہے، جو کاروبار، سفارت کاری اور اسٹریٹیجک تعاون میں مشترکہ کوششوں کو شکل دیتا اور تیز کرتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کی سلامتی دونوں ممالک کے رشتوں کا ایک مضبوط ستون ہے، اور جوہری توانائی میں کئی دہائیوں کی تعاون صاف توانائی کی مشترکہ وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔
دورے کے دوران کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں روس میں ہندوستانی شہریوں کی ملازمت کو آسان بنانے والا معاہدہ شامل ہے۔ پوتن نے واضح کیا کہ روس ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی معیشت کے لیے “غیر منقطع ایندھن کی فراہمی” جاری رکھنے کو تیار ہے، جو موجودہ سیاسی حالات یا یوکرین کی صورتحال سے متاثر نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ روسی کاروباری اداروں نے ہندوستان کے ساتھ ایک مضبوط اور موثر تجارتی رابطہ قائم کیا ہے، جو باہمی اعتماد پر مبنی ہے۔ مودی نے بھی زور دیا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان قریبی رابطوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے روس میں دو نئی ہندوستانی قونصل خانے کھولے گئے ہیں، اور روسی سیاحوں کے لیے 30 روزہ ویزا سکیم جلد متعارف ہوگی۔
اس دورے کو ماہرین مغربی دباؤ کے تناظر میں ہندوستان کی خودمختار خارجہ پالیسی کی عکاسی قرار دے رہے ہیں، خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے روسی تیل کی خریداری پر تنقید کے بعد۔ چیتگج بجپائی، چیتھم ہاؤس کے جنوبی ایشیا کے سینئر ریسرچ فیلو، کا کہنا ہے کہ “یہ پیغام یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس اختیارات ہیں، اور یہ روس کے ساتھ رشتوں کو دوبارہ تصدیق کرنے کی کوشش ہے جبکہ مغرب کی طرف سے اسے کم کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔” سمٹ میں فوجی، خلائی، مصنوعی ذہانت اور دیگر شعبوں میں آگے بڑھنے پر اتفاق ہوا، جبکہ ہندوستان نے مزید ایس-400 دفاعی نظام کی درآمد کا اشارہ دیا۔
صحافیوں سے بات چیت میں پوتن نے ہندوستانی محاورہ “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” (Go Together, Grow Together) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستان-روس رشتوں کی فطرت اور کردار کو سچائی سے ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے مودی کی قیادت میں ہندوستان کی خودمختار معاشی پالیسی کی تعریف کی، جو عظیم نتائج حاصل کر رہی ہے، اور کہا کہ روس ہندوستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں کثیر الجہتی رشتوں کی تلاش میں ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بھی اس دورے پر بحث گرم ہے، جہاں کئی صارفین نے اسے ہندوستان کی سفارتی کامیابی قرار دیا، جبکہ کچھ نے اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے۔
پوتن نے جمعہ کی شام راشٹراپتی بھون میں عشائیہ کے بعد نئی دہلی سے روانگی اختیار کی، جہاں انہیں گرمجوشی سے رخصت کیا گیا۔ یہ دورہ 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد پوتن کا ہندوستان کا پہلا سرکاری دورہ تھا، جو دونوں ممالک کی دوستی کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رشتے عالمی سیاست کی تبدیلیوں کے باوجود مضبوط رہیں گے، اور ہندوستان روس کو اپنی خارجہ پالیسی میں “اسٹریٹیجک سیفٹی نیٹ” کے طور پر دیکھتا رہے گا۔