رپورٹ:
الینا ایوانووا-
ترجمہ:
اشتیاق ہمدانی
قومیں اپنی شناخت عمارتوں، ہتھیاروں یا نعروں سے نہیں بناتیں، بلکہ زبان، فکر اور علم سے بنتی ہیں۔ جو معاشرہ اپنی زبان کی حفاظت کرتا ہے، دراصل وہ اپنی تہذیب، تاریخ اور اجتماعی شعور کو محفوظ بناتا ہے۔ روس میں حال ہی میں پیش کی جانے والی ایک دستاویزی فلم اسی حقیقت کی یاد دہانی ہے، جس کا موضوع ہیں عظیم ماہرِ لسانیات اور لغت مرتب کرنے والے سرگئی اوزیگوف — وہ شخصیت جس کے بغیر روسی زبان کا تصور ادھورا ہے۔
یہ دستاویزی فلم سب سے پہلے روس کے علاقے تُوَیر (Tver) کے عوام کے سامنے پیش کی گئی۔ یہ محض ایک فلمی نمائش نہیں تھی بلکہ ایک فکری اور تہذیبی تقریب تھی۔ اس خطے کا انتخاب کوئی اتفاق نہیں تھا، کیونکہ تُوَیر ہی وہ سرزمین ہے جہاں سرگئی اوزیگوف نے آنکھ کھولی۔ گویا لفظوں کا یہ معمار اسی مٹی میں واپس لوٹا جہاں سے اس کا فکری سفر شروع ہوا تھا۔
فلم کی نمائش اوزیگوف کی پیدائش کی 125ویں سالگرہ کے موقع پر کی گئی۔ یہ فلم غیر سرکاری ادارے سینٹر فار میڈیا اسٹریٹیجیز کی تخلیقی ٹیم نے تیار کی، جبکہ اس کی عکس بندی تُوَیر اور روستوف کے علاقوں کے علاوہ ماسکو میں بھی کی گئی۔ اوزیگوف پر بننے والی یہ فلم مشہور دستاویزی سلسلے “اسٹوری آف اے سپر ہیرو” کی چوتھی کڑی ہے۔ اس سے قبل اسی سلسلے میں روس کی عسکری اور تاریخی شخصیات — اَتَمان پلاٹوف، یوسیف گورکو اور ایوان کونیف — پر فلمیں بنائی جا چکی ہیں، جو نہ صرف روس بلکہ بیرونِ ملک بھی نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔
ان فلموں کا مقصد یورپی ناظرین کو یہ باور کرانا ہے کہ روس کا تاریخی کردار محض فوجی طاقت تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے فکری، ثقافتی اور تہذیبی سطح پر بھی دنیا کو متاثر کیا ہے — ایک ایسا پہلو جسے آج کے دور میں بعض حلقے نظر انداز یا مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تُوَیر ریجنل انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ ٹیچر ٹریننگ کے اسمبلی ہال میں منعقدہ اس تقریب میں فلالوجی کے طلبہ، صحافی، روسی زبان کے اساتذہ، ماہرین اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سب کی توجہ ایک ہی شخصیت پر مرکوز تھی — اپنے ہم وطن سرگئی اوزیگوف پر، جن کی خدمات نے روسی زبان کو ایک منظم، معیاری اور زندہ زبان کی حیثیت دی۔
فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح اوزیگوف کی علمی کاوشوں نے روسی زبان کی ترقی اور اس کے تحفظ میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے زبان کو محض لغوی یا ادبی دائرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے سماجی زندگی، صحافت، تعلیم اور ریاستی اظہار کا مضبوط ذریعہ بنایا۔ اسی لیے فلم میں انہیں محض ایک عالم نہیں بلکہ جدید دور کا ایک حقیقی ہیرو قرار دیا گیا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینٹر فار میڈیا اسٹریٹیجیز کے ڈائریکٹر مارک بائیکوف نے کہا کہ یہ فلم روس کی ان شخصیات کے لیے خراجِ تحسین ہے جنہوں نے ملک کو نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی وقار بخشا۔ ان کے مطابق اوزیگوف کی مرتب کردہ لغت آج بھی سربیا، ریپبلیکا سرپسکا، بلغاریہ، مونٹی نیگرو اور دیگر یورپی ممالک میں استعمال ہو رہی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تصنیف سرحدوں سے ماورا علمی اہمیت رکھتی ہے۔
روسی پیڈاگوجیکل سوسائٹی کے مرکزی کونسل کے چیئرمین الیگزینڈر بٹوزوف نے بجا طور پر کہا کہ اوزیگوف کی لغت وہ کتاب ہے جس کے بغیر آج کا علمی اور صحافتی کام ممکن نہیں۔ ان کے بقول ہم آج بھی مضامین لکھتے ہوئے، تقاریر تیار کرتے وقت اور علمی مباحث میں اس لغت سے رجوع کرتے ہیں — اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تصنیف آج بھی فرسودہ نہیں ہوئی۔
فلم کی ایک ماہر، تُوَیر اسٹیٹ یونیورسٹی میں روسی زبان کے شعبے کی سربراہ ارینا گلیڈینا نے نہایت خوبصورت مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے مرینا تسویتافا نے “میرا پشکن” لکھا تھا، ویسے ہی یہ فلم دراصل “میرا اوزیگوف” کی کہانی ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پانچویں جماعت میں انہیں اوزیگوف کی لغت تحفے میں ملی، اور بعد ازاں وہ خود ان کے علمی تسلسل کا حصہ بن گئیں۔ ان کے مطابق زبان کی یہ روایت نسل در نسل منتقل ہونا ہی اصل کامیابی ہے۔
فلم کے ایک اور مقرر، گلیب سافونوف، نے اس بات پر زور دیا کہ قوموں کو اپنے ان ہیروز کو جاننا چاہیے جنہوں نے ثقافت اور علم کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اوزیگوف ہی وہ شخصیت تھے جنہوں نے روسی اکیڈمی آف سائنسز کے ادارۂ زبان میں ثقافتِ تقریر کے باقاعدہ مطالعے کی بنیاد ڈالی، اور زبان کو محض فلالوجی کا موضوع نہیں بلکہ عوامی زندگی کا آلہ قرار دیا۔
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اوزیگوف کی کاوشوں کے نتیجے میں جریدہ “روسی تقریر” جاری ہوا اور درست زبان کے حوالے سے ایک ریفرنس سروس قائم کی گئی۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان کی لغت کا پہلا ایڈیشن اسی علاقے کے کاغذ پر شائع ہوا جہاں وہ پیدا ہوئے تھے — گویا مٹی، لفظ اور فکر ایک دائرے میں مکمل ہو گئے۔
سرگئی اوزیگوف پر بنائی گئی یہ دستاویزی فلم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی ورثہ ہے۔ یہ فلم نئی نسل کو اس ورثے کی قدر سکھاتی ہے اور انہیں ترغیب دیتی ہے کہ وہ زبان کو سیکھیں، سمجھیں اور سنواریں۔
ایسے ہی لوگ دراصل تاریخ بناتے ہیں — خاموشی سے، مگر ہمیشہ کے لیے۔