ہوائی میں ڈرون سے ہزاروں مچھر گرائے جا رہے ہیں، مقصد نایاب پرندوں کی بقا
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی ریاست ہوائی کے جنگلات پر جون سے ایک عجیب منظر دیکھنے میں آ رہا ہے: ڈرون سے سینکڑوں بائیوڈیگریڈیبل پوڈز گرائے جا رہے ہیں، جن میں سے ہر ایک ہزار کے قریب نر مچھر نکلتے ہیں۔ یہ کوئی حملہ نہیں، بلکہ ہوائی کے نایاب اور ثقافتی طور پر مقدس پرندوں کو بچانے کی ایک جدید سائنسی کوشش ہے۔
یہ مچھر لیبارٹری میں تیار کیے گئے ہیں، یہ کاٹتے نہیں اور ان کے جسم میں ایک عام بیکٹیریا (Wolbachia) موجود ہے۔ جب یہ جنگلی مادہ مچھروں سے ملتے ہیں تو انڈے تو دیتے ہیں، مگر وہ انڈے کبھی نہیں پھوٹتے۔ اس طریقے سے ہوائی میں حملہ آور (invasive) مچھروں کی تعداد کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، جو ایوین میلریا پھیلا کر مقامی پرندوں کو مار رہے ہیں۔
ہوائی کے جنگل ایک زمانے میں 50 سے زائد اقسام کے خوبصورت ہنی کریپر پرندوں سے گونجتے تھے۔ آج صرف 17 اقسام باقی ہیں، جن میں سے زیادہ تر خطرے سے دوچار ہیں۔ گزشتہ سال چھوٹا سا سرمئی پرندہ ’اکی کیکی‘ جنگل میں مکمل طور پر معدوم ہو چکا، جبکہ پیلے سبز رنگ کے ’اکی کی‘ کی تعداد سو سے بھی کم تعداد رہ گئی ہے۔
امریکن برڈ کنزرونسی کے ہوائی پروگرام ڈائریکٹر ڈاکٹر کرس فارمر کے مطابق، جنگلات کی کٹائی اور ترقی نے ضرور نقصان پہنچایا، لیکن ”وجودی خطرہ“ ایوین میلریا ہے، جسے یہ غیر مقامی مچھر پھیلاتے ہیں۔ یہ مچھر 1826 میں وہیلنگ جہازوں کے ذریعے حادثاتی طور پر ہوائی پہنچے اور پرندوں کی کئی نسلیں ختم کر دیں۔
پہلے ہوائی کے ٹھنڈے بلند علاقوں میں مچھر نہیں پہنچ سکتے تھے، اس لیے وہاں ہنی کریپر پرندوں نے پناہ لی۔ مگر اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور مچھر مسلسل پہاڑوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر فارمر کہتے ہیں: ”مچھر جہاں درجہ حرارت اجازت دے وہاں چڑھ رہے ہیں، اور پرندوں کو اوپر دھکیلا جا رہا ہے جب تک کہ ان کے پاس بچنے کی کوئی جگہ ہی نہ رہے۔ اگر ہم اس سائیکل کو نہ توڑا تو ہم اپنے ہنی کریپرز مکمل طور پر کھو دیں گے۔“
یہی وجہ ہے کہ ڈرون سے مچھروں کی “بارش” کی جا رہی ہے، تاکہ پرندوں کی آخری پناہ گاہوں کو بچایا جا سکے۔