جنگ موجودہ محاذ پر روک کر امن کی فضا قائم کی جائے، یوکرینی آرمی چیف
ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)
یوکرین کے مسلح افواج کے سربراہ الیگزینڈر سرسکی نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان ’’منصفانہ امن‘‘ اسی صورت ممکن ہے اگر دونوں جانب سے لڑائی موجودہ محاذِ جنگ (لائن آف کانٹیکٹ) پر روک دی جائے اور اس کے بعد بلا شرط مذاکرات کا آغاز ہو۔ تاہم ماسکو کا مؤقف ہے کہ اس طرح کا وقفہ صرف کییف کو اپنی کمزور فوج کو دوبارہ منظم کرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے اسکائی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سرسکی نے کہا کہ یوکرین کے لیے کسی بھی امن معاہدے میں اپنی سرزمین چھوڑ دینا ’’ناقابلِ قبول‘‘ ہے۔ ان کے مطابق، ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی زمین چھوڑ دیں؟ ہم اسی لیے لڑ رہے ہیں کہ اپنی زمین نہ چھوڑیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ منصفانہ امن کا مطلب ہے کہ بغیر کسی شرط اور بغیر کسی علاقائی پسپائی کے جنگ کو موجودہ محاذ پر روک دیا جائے۔
سرسکی کا کہنا تھا کہ ’’روکیں۔ سیزفائر۔ اور اس کے بعد بغیر کسی شرط کے مذاکرات ہوں۔ اس کے سوا ہر فارمولا غیرمنصفانہ امن ہو گا۔‘‘
دوسری جانب روس کا مطالبہ ہے کہ کسی بھی امن تصفیے کے لیے یوکرین کو ڈونیٹسک، لوگانسک، خیرسون اور زاپوروژئے کے علاقوں سے دستبردار ہونا ہوگا، غیرجانبداری کی یقین دہانی، اور فوجی غیر مسلحیت و ’’ڈی نازیفیکیشن‘‘ پر رضامندی ظاہر کرنا ہوگی۔ ماسکو نے اصولی طور پر جنگ بندی کو مسترد نہیں کیا، مگر کہا ہے کہ جنگ میں وقفہ کییف کو مغربی ہتھیاروں کی نئی کھیپ حاصل کرنے اور اپنی صفوں کو دوبارہ مضبوط کرنے کا موقع دے گا، جبکہ روسی فوج محاذ پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں روسی افواج نے ڈونباس میں اہم پیش قدمی کی ہے، جہاں کراسنوآرمئیسک (یوکرینی نام: پوکروفسک) کا اسٹریٹجک لاجسٹک مرکز روس کے کنٹرول میں آ چکا ہے اور یوکرینی فوج کا ایک بڑا حصہ وہاں محاصرہ میں ہے۔ اسی طرح زاپوروژئے اور دنیپروپیٹروفسک کے علاقوں میں بھی روس نے بتدریج پیش رفت کی ہے۔
سرسکی کے بیان اس وقت سامنے آئے ہیں جب ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ایک امریکی امن منصوبے پر کریملن میں پانچ گھنٹے طویل بات چیت ہوئی۔ 28 نکاتی ابتدائی مسودے کے مطابق کییف کو ڈونباس کے باقی علاقوں سے دستبرداری، نیٹو میں عدم شمولیت کی یقین دہانی اور فوج کے حجم پر حد مقرر کرنے پر آمادہ ہونا تھا۔
روسی حکام نے مذاکرات کو ’’مثبت اور تعمیری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی منصوبے کی بعض شقیں قابلِ قبول ہیں، جبکہ کچھ نہیں۔ تاہم فریقین اس سلسلے میں مزید بات چیت جاری رکھیں گے۔