پنجاب میں ٹریفک کریک ڈاؤن: قوانین کی سختی عوامی تحفظ ، یا معاشی بوجھ کی تلافی؟

Traffic Police Lahore Traffic Police Lahore

پنجاب میں ٹریفک کریک ڈاؤن: قوانین کی سختی عوامی تحفظ ، یا معاشی بوجھ کی تلافی؟

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
پنجاب حکومت کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر شروع کیے گئے تاریخی کریک ڈاؤن نے صوبے بھر میں شدید ردعمل پیدا کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایات پر ‘زیرو ٹالرنس’ پالیسی کے تحت گزشتہ 72 گھنٹوں میں ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد چالان کاٹے گئے، 13 کروڑ 48 لاکھ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے، 25 ہزار 424 موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں تھانوں میں بند کر دی گئیں، جبکہ سنگین خلاف ورزیوں پر 4 ہزار 585 افراد کو حوالات بھیج دیا گیا۔ ٹریفک پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائیاں سڑکوں پر حادثات کو روکنے، جان و مال کی حفاظت اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں، جہاں پاکستان میں ہر سال 50 ہزار سے زائد افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے ہیں، اور پنجاب سرفہرست ہے۔ تاہم، عوام کا ایک بڑا حصہ اسے ‘غریبوں پر معاشی حملہ’ قرار دے رہا ہے، اور سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا حکومت اس طرح جرمانوں سے صوبائی معیشت چلانے کا ارادہ رکھتی ہے؟
صوبائی پولیس کے ترجمان کے مطابق، صرف 48 گھنٹوں میں 76 ہزار سے زائد چالان، 13 ہزار گاڑیاں ضبط اور 7 کروڑ 12 لاکھ روپے جرمانے وصول ہو چکے ہیں، جن میں بغیر ہیلمٹ چلانے والے 12 ہزار، بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے والے 11 ہزار 700، ون وے خلاف ورزی پر 4 ہزار اور دھواں چھوڑنے والی 48 ہزار گاڑیوں پر خصوصی کارروائیاں شامل ہیں۔ راولپنڈی میں تو پہلے چار دنوں میں 600 سے زائد ای-چالان جاری ہو چکے، جو 2,100 سمارٹ کیمروں کے نیٹ ورک پر مبنی ہیں۔ حکومت نے موٹر وہیکل ایکٹ 2025 میں 20 بڑی ترامیم کی ہیں، جن میں بار بار خلاف ورزی پر گاڑی کی نیلامی، سرکاری گاڑیوں پر بھی بھاری جرمانے، کم عمر ڈرائیونگ پر 6 ماہ قید، بسوں کی چھت پر سواریوں پر پابندی اور لاہور کی ماڈل سڑکوں پر چنگ چی رکشوں کی منعفرماً پابندی شامل ہے۔ اس کے علاوہ، سموگ مہم کے تحت دھوئیں چھوڑنے والی 97 ہزار گاڑیوں پر جرمانے کیے گئے، جو فضائی آلودگی کو کم کرنے کا حصہ ہے۔
عوامی سطح پر ردعمل شدید ہے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن ‘غریب موٹر سائیکل سواروں پر حملہ’ ہے، جہاں دیہاڑی مزدور کی آمدنی 1500 روپے ہے مگر جرمانہ 2 سے 5 ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔ رحیم یار خان میں رکشہ یونین اور شہریوں نے ڈی سی آفس روڈ بلاک کر دیا، جبکہ ملتان اور لاہور میں احتجاج کی اطلاعات ہیں۔ ایک صارف نے لکھا: “قانون ضروری ہے، مگر ریاست پہلے سستی ٹرانسپورٹ دے، جیسے گرین بسیں طلبہ کے لیے مفت ہیں۔” دوسری جانب، کچھ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں، جیسے ملتان میں ٹریفک رولز کی پابندی بڑھ گئی اور حادثات کم ہو سکتے ہیں۔ راولپنڈی میں سرکاری گاڑیوں سمیت 21 وہیکلز کو چالان کیا گیا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ‘کوئی رعایت نہیں’۔
حکومت کا موقف واضح ہے: آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ڈی آئی جی ٹریفک نے کہا کہ یہ ‘زندگیوں کی حفاظت’ اور ‘منظم ٹریفک’ کا حصول ہے، نہ کہ آمدنی کا ذریعہ۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمانوں کی وصولی صوبائی بجٹ میں اضافہ کر سکتی ہے، مگر اگر عوامی سہولیات نہ بڑھیں تو یہ معیشت پر بوجھ بن جائے گا۔ اسلام آباد-راولپنڈی سگنل فری کوریڈور جیسے انفراسٹرکچر منصوبے (30 ارب روپے) ٹریفک جام کم کر سکتے ہیں، لیکن ابھی تک ان کا اثر نظر نہیں آ رہا۔ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو سمجھانے، متبادل ٹرانسپورٹ بڑھانے اور اپیل کا آسان نظام یقینی بنائے تاکہ یہ کریک ڈاؤن ‘سزا’ نہ بلکہ ‘اصلاح’ بن جائے