پنجاب میں بھاری ٹریفک جرمانوں کے خلاف ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال، مسافر پریشان

Bus Bus

پنجاب میں بھاری ٹریفک جرمانوں کے خلاف ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال، مسافر پریشان

اسلام آباد (صداۓ روس)
لاہور، راولپنڈی سمیت صوبہ بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ معطل، سامان کی ترسیل رک گئی؛ حکومت اور ٹرانسپورٹرز کے مذاکرات کا دوسرا دور آج دوپہر 2 بجے
پنجاب موٹر وہیکل آرڈیننس 2025 پر تنازع: جرمانوں کی شرح 1000 فیصد تک بڑھ گئی، ڈرائیوروں پر کیسز اور گاڑیاں پکڑی جارہی ہیں
لاہور: پنجاب حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے نئے ٹریفک قوانین، خاص طور پر بھاری ٹریفک جرمانوں، کے خلاف آل پاکستان گڈز ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (APGTA) اور دیگر ٹرانسپورٹ یونینز نے صوبہ بھر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، جس کی وجہ سے لاہور، راولپنڈی، اوکاڑہ، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں مسافروں، طلبہ اور سامان کی ترسیل بری طرح متاثر ہو گئی ہے۔ ہڑتال 8 دسمبر 2025 کو شروع ہوئی، جو صوبائی سطح پر محدود تھی لیکن اب قومی سطح پر پھیلنے کا خطرہ ہے، کیونکہ 10 دسمبر سے پورے ملک میں ویل جم ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس ہڑتال کی وجہ سے انٹرا سٹی، انٹر ڈسٹرکٹ اور انٹر پراونشل ٹرانسپورٹ سروسز معطل ہو گئی ہیں، جس سے لاکھوں مسافر بس اسٹاپوں پر الجھے ہوئے ہیں اور ٹرینوں یا مہنگے رینٹ اے کار کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔
ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ پنجاب موٹر وہیکل آرڈیننس 2025، جو نومبر 2025 کے آخر میں نافذ کیا گیا، ٹریفک خلاف ورزیوں پر جرمانوں کی شرح کو ڈراسٹیکل طور پر بڑھا دیتا ہے۔ سپیڈنگ، سگنل جمپنگ، گاڑی کی اوور لوڈنگ اور دیگر خلاف ورزیوں پر جرمانے 5 ہزار سے 20 ہزار روپے تک بڑھا دیے گئے ہیں، جو پہلے سے 1000 فیصد تک زیادہ ہیں۔ APGTA کے صدر نبیل طارق نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ “یہ قوانین بغیر کسی مشاورت کے نافذ کیے گئے، جو ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹرز کی معیشت کو تباہ کر دیں گے۔” انہوں نے 25 نکاتی مطالبات پیش کیے، جن میں جرمانوں کی نظر ثانی، ڈرائیونگ لائسنس فیس میں کمی (جو پنجاب میں 12 ہزار روپے ہے جبکہ ملک بھر میں 1200 روپے)، نئے ٹرک سٹینڈز کی زمین اور ہائی وے ڈکیتیوں کے خلاف سخت کارروائی شامل ہے۔
ہڑتال کی شدت اس وقت بڑھ گئی جب اسکول وینز مالکان بھی اس میں شامل ہو گئے، جس کی وجہ سے صوبے بھر کے اسکولوں میں طلبہ کی آمد کم ہو گئی اور کئی جگہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں ٹرانسپورٹ ایکشن کمیٹی نے ہڑتال کا اعلان کیا، جہاں انٹرا سٹی اور انٹر سٹی سروسز معطل ہو گئیں، اور مسافر شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اسلام آباد ٹرانسپورٹ فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے، اور جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی) راولپنڈی نے غریب موٹر سائیکل سواروں کی مشکلات کا حوالہ دیتے ہوئے اسے عوامی تحریک قرار دیا۔ ہڑتال سے سامان کی ترسیل رک گئی ہے، جس سے زرعی پیداوار، صنعتی خام مال اور ریٹیل سامان کی سپلائی چین میں خلل پڑ گیا، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیداواری تاخیر اور لاگت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
دوسری جانب، ٹرانسپورٹرز اور پنجاب حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور ناکام رہا، جہاں ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے مطالبات کی فوری قبولیت کا مطالبہ کیا۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ نے اعلان کیا کہ دوسرا دور آج دوپہر 2 بجے لاہور میں ہوگا، جہاں جرمانوں کی نظر ثانی اور دیگر مطالبات پر بات چیت ہوگی۔ پنجاب انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے ہڑتال کو “بلیک میلنگ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی خلاف ورزی پر ہڑتال نہیں کی جاتی، اور ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر چلانا ‘قتل کی اجازت’ ہے۔” انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے 48 گھنٹوں میں 76 ہزار سے زائد چالان جاری کیے گئے، جن کی مالیت 71.2 ملین روپے تھی، اور 13 ہزار گاڑیاں پکڑی گئیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ یہ قوانین روڈ سیفٹی کو بہتر بنانے اور حادثات کم کرنے کے لیے ہیں، نہ کہ آمدنی بڑھانے کے لیے۔ تاہم، ٹرانسپورٹرز کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ڈرائیوروں کو “مجرم” بنا رہے ہیں اور صوبے کی 80 فیصد ٹرانسپورٹ آپریشنز سست ہو گئی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مطالبات نہ مانے گئے تو ہڑتال غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے، جو صوبے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی شہریوں کی شکایات وائرل ہو رہی ہیں، جہاں مسافر اور طلبہ نے حکومت سے فوری حل طلب کیا ہے۔