برطانیہ کا انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد پر پابندیاں لگانے کا اعلان
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
برطانیہ نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے ان کے اثاثے منجمد کرنے اور ملک میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اعلان برطانوی وزیر خارجہ ڈیویڈ لامی نے منگل کے روز کیا، جب کہ پابندیاں بدھ سے نافذ العمل ہوں گی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ نے دنیا کا پہلا ایسا قانونی فریم ورک متعارف کرایا ہے جو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انگلش چینل عبور کرکے غیرقانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے افراد کو اسمگل کرنے والے گروہوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہدف بناتا ہے۔ اس فریم ورک کے تحت ان افراد کے اثاثے منجمد کیے جا سکتے ہیں اور ان پر برطانیہ میں داخلے کی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں جب برطانیہ میں یورپ سے آنے والی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے غیرقانونی مہاجرت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ برطانوی حکام کا کہنا ہے کہ یہ راستہ اب منظم اسمگلنگ نیٹ ورکس کی سرگرمیوں سے جُڑا ہوا ہے۔
برطانیہ کی وزارت داخلہ کے مطابق 2025 کے پہلے چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار افراد چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچے، جو کہ 2024 کے مقابلے میں 50 فیصد اور 2023 کے مقابلے میں 75 فیصد زیادہ ہے۔ اس صورت حال نے عوامی سطح پر تشویش کو جنم دیا ہے، خاص طور پر ان رپورٹس کے بعد جن میں کچھ مہاجرین کو پرتشدد واقعات اور جنسی زیادتیوں میں ملوث قرار دیا گیا۔ برطانیہ بھر میں مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے، جن میں پناہ گزینوں کے مراکز پر نگرانی سخت کرنے اور مجرموں کی شناخت کو عوام کے سامنے لانے کے مطالبات شامل تھے۔
برطانیہ نے حال ہی میں جرمنی اور فرانس کے ساتھ بھی اس مسئلے پر تعاون بڑھانے کے معاہدے کیے ہیں۔ جرمنی نے کشتیوں اور انجنوں کی ذخیرہ اندوزی کو جرم قرار دینے پر اتفاق کیا ہے، جب کہ فرانس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت برطانیہ چھوٹی کشتیوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کو فرانس واپس بھیجے گا، اور بدلے میں قانونی طریقے سے درخواست دینے والے پناہ گزینوں کو قبول کرے گا۔ مئی میں وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے امیگریشن اصلاحات کی تجاویز بھی پیش کیں، جن میں انگریزی زبان کی مہارت کے سخت معیار، ویزہ کے لیے زیادہ آمدنی کی شرط اور مستقل رہائش کے لیے درکار مدت کو 10 سال تک بڑھانے کی تجاویز شامل تھیں۔ ان اصلاحات کا مقصد سالانہ ایک لاکھ تک قانونی ہجرت میں کمی لانا ہے، تاہم یہ قانون ابھی منظور نہیں ہوا۔ ادھر اطلاعات کے مطابق برطانیہ ان افراد کو جن کی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی ہے، مغربی بلقان ممالک میں قائم کیے جانے والے ’ریٹرن ہبز‘ میں منتقل کرنے کا بھی جائزہ لے رہا ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔ اس سے قبل روانڈا کے ساتھ کیا گیا اسی نوعیت کا منصوبہ قانونی اور سیاسی مخالفت کی وجہ سے ترک کر دیا گیا تھا۔
برطانیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا میں جاری جنگوں، غربت اور مغربی مداخلتوں نے عالمی مہاجرین کے بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے، جس کا بوجھ اب یورپ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔