امریکا ایشیا کو زہریلے کچرے کے ‘خفیہ سونامی’ میں ڈوبا رہا ہے ، رپورٹ

waste catcher Crane waste catcher Crane

امریکا ایشیا کو زہریلے کچرے کے ‘خفیہ سونامی’ میں ڈوبا رہا ہے ، رپورٹ

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکا کی بڑی کمپنیاں لاکھوں ٹن ناکارہ الیکٹرانک آلات ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو برآمد کر رہی ہیں، جو زہریلے فضلے کو محفوظ انداز میں تلف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ انکشاف بدھ کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ سیٹل میں قائم ماحولیاتی تنظیم بیزل ایکشن نیٹ ورک (BAN) کے مطابق، امریکہ کی دس بڑی فرمز باقاعدگی سے ایسے ممالک کو ای ویسٹ (e-waste) بھیج رہی ہیں جنہوں نے اس کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس غیر قانونی کاروبار کی مالیت ہر ماہ 20 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ جنوری 2023 سے فروری 2025 کے درمیان ان شپمنٹس نے امریکا اور ملیشیا کے درمیان مجموعی تجارت کا تقریباً 6 فیصد حصہ تشکیل دیا، جو اس زہریلے فضلے کی سب سے بڑی وصول کنندہ ریاست ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا یہ ایک نئی، تقریباً غیر مرئی سونامی ہے، جو امریکی عوام اور کارپوریشنز کے ناکارہ کمپیوٹر اور دیگر برقی آلات کو جنوب مشرقی ایشیا کے ان علاقوں میں بھیج رہی ہے جہاں یہ خطرناک مواد انتہائی نقصان دہ طریقوں سے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔”

BAN کے مطابق، یہ عمل زیادہ تر “غیر منظم دلالوں اور درمیانی کمپنیوں” کے ذریعے کیا جا رہا ہے، جو بظاہر خود کو “ذمہ دار ری سائکلرز” ظاہر کرتے ہیں، مگر درحقیقت یہ فضلہ غیر رسمی بیرونی کباڑ خانوں کو بھیجتے ہیں۔ وہ عموماً اس سامان کو خام مال یا قابلِ استعمال الیکٹرانکس ظاہر کر کے کسٹم سے کلیئر کرواتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایسی فیکٹریوں میں فضلہ کھلے عام جلانے، تیزاب سے دھونے اور دیگر خطرناک طریقوں سے علیحدہ کیا جاتا ہے، جہاں غیر رجسٹرڈ مزدور بغیر کسی حفاظتی سامان کے کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد فضلے کی غیر قانونی پھینکائی ماحول اور مقامی آبادی کے لیے طویل مدتی خطرات پیدا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، عالمی سطح پر ای ویسٹ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور 2022 میں اس کی مقدار 6 کروڑ 20 لاکھ میٹرک ٹن تک جا پہنچی، جس میں سے صرف ایک چوتھائی کو ہی درست انداز میں ری سائیکل کیا گیا۔ اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ مقدار 8 کروڑ 20 لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ جائے گی

Advertisement