یوکرین جنگ آج ختم ہو یا سو سال بعد، ہوگی روسی شرائط پر
تحریر: شہزاد کاظمی

سال 2022 کا دن 24 فروری، جب کریملن میں موجود روسی صدر نے روسی سلامتی کونسل کی مشاورت کے بعد بالآخر یوکرین میں جاری ستم کو ختم کرنے اور دونباس کے لوگوں کی مدد کی غرض سے روسی فوج کو یوکرین میں داخل ہونے کا حکم دیتے ہوئے خصوصی فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا، جس کا مقصد یوکرینی ظالم فوج کے نیو نازی ایجنڈے کو ختم کرنا اور انہیں دونباس کی حدود سے باہر دھکیلنا تھا، جس کو دونباس کے ذیلی ریجن لوہانسک اور دونیسک کے لوگوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ یوکرین تنازعے کی اصل بنیاد 2022 کے روسی فوجی آپریشن سے نہیں بلکہ سال 2014 سے شروع ہوئی، جب مغرب نے اپنی روایت کے مطابق ایک عوامی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی، جس کا مقصد امریکہ اور یورپ کے مفادات کا دفاع کرنا اور روسی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا تھا، جبکہ دونباس کے لوگوں کی روس کے لیے حمایت کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ رپورٹس کے مطابق یوکرینی فوج نے 19 فروری سے 22 فروری 2022 تک روس کے شہر راسٹوف اون ڈون میں روسی فوج کی چوکی پر شیلنگ کی۔
یوکرین میں مغرب نواز کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے فوری بعد دونباس کے لوگوں پر ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ روسی زبان، کلچر، تاریخ اور ادب پر پابندیاں عائد کردی گئیں، روسی بولنے والوں پر زمین تنگ کردی گئی۔ یوکرین کے مشرقی علاقے دونباس کے دو معروف ریجن لوہانسک اور دونیسک میں روسی حمایت رکھنے والے لوگوں کا قتلِ عام شروع ہوگیا۔ اس دوران یوکرینی فوج نے دونباس کی حاملہ خواتین کو چاقو گھونپے، لوگوں کو زندہ جلایا، ان کی املاک اور مال پر قبضہ کیا جانے لگا اور صورت حال دن بدن سنگین ہوتی گئی۔ روس نے اس مسئلے کو دنیا کے تمام بین الاقوامی فورمز— جن میں G8، اقوام متحدہ، اور یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم (OSCE) شامل ہیں — میں اٹھایا مگر اس تنازعے کا کوئی حل نہ نکلا۔
بالآخر روس کی مسلسل کاوش کے بعد مینسک معاہدے کا اعلان ہوا۔ دونباس کے پُرامن حل کے لیے سہ فریقی رابطہ گروپ (یوکرین، روس، او ایس سی ای) اور نارمنڈی فارمیٹ (جرمنی، فرانس، روس، یوکرین) نے دونباس میں قیامِ امن کے لیے اتفاق کیا۔ روس نے ان سفارتی ذرائع کا استعمال مینسک معاہدوں پر عمل درآمد پر زور دینے کے لیے کیا، جن میں دونباس کے علاقوں (دونیسک اور لوہانسک) کو یوکرین کے اندر “خصوصی حیثیت” اور زیادہ خودمختاری دینے کی دفعات شامل تھیں۔ مینسک معاہدے میں بنیادی شقیں یہ تھیں کہ دونباس میں فوری اور جامع جنگ بندی ہوگی، بھاری ہتھیاروں کی واپسی ہوگی، غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا، یرغمالیوں کا تبادلہ ہوگا، آئینی اصلاحات اور خصوصی حیثیت قائم ہوگی، بلدیاتی انتخابات ہوں گے، دونباس کی امنگوں کا احترام کیا جائے گا اور ریاستی ظلم ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ مینسک معاہدے پر روس، یوکرین اور یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم نے دستخط کیے، جبکہ فرانس اور جرمنی نے کلیدی ثالث کا کردار ادا کیا۔ مگر یوکرین مغرب کی شہ پر مینسک معاہدوں پر عمل درآمد سے گریز کرتا رہا۔ روس نے دنیا بھر کے متعدد عالمی فورمز پر آواز اٹھائی کہ مینسک معاہدوں پر عمل درآمد کیا جائے اور دونباس کے لوگوں کو ریاستی دہشت گردی سے بچاتے ہوئے قیامِ امن یقینی بنایا جائے، مگر روس کی تمام سفارتی کوششیں ناکام بنادی گئیں اور یوکرینی فوج بدستور ظلم ڈھاتی رہی۔
یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ اس دوران دونباس کے مقامی لوگوں نے یوکرین کی فوج کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی، جس کا مقصد اپنے لوگوں کو محفوظ کرنا تھا۔ علیحدگی پسند گروپس نے یوکرین کی فوج کے خلاف مزاحمت جاری رکھی اور یہ سلسلہ 2014 سے 2022 تک چلتا رہا۔ بالآخر دونباس کے علاقوں — خیرسون ریجن کے سربراہ ولادیمیر سالڈو، زاپوروزئے ریجن کے سربراہ یوگینی بالٹسکی، ڈونیٹسک عوامی جمہوریہ کے سربراہ ڈینس پشیلین، اور لوگانسک عوامی جمہوریہ کے سربراہ لیونیڈ پاسیچنک — نے یوکرین سے علیحدگی اور آزاد خود مختار ریاستیں قائم کرنے کا اعلان کیا اور روس کے ساتھ الحاق کی خواہش کا اظہار کیا۔
روس نے دونباس کے لوگوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس عمل کو ریفرنڈم سے مشروط کیا، جس کا مقصد اسے قانونی حیثیت دینا تھا، اور بالآخر ستمبر 2022 کے آخر میں دونباس کے علاقوں میں روس سے الحاق کے لیے ریفرنڈم ہوئے، جن میں 96 فیصد لوگوں نے روس میں شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا۔ روس نے ان نتائج کے بعد 30 ستمبر 2022 کو یوکرین میں جاری فوجی آپریشن کے دوران یوکرین کے چار اوبلاستوں— دونیسک، خیرسون، لوہانسک اور زاپوریزہیا — کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے ماسکو کے ریڈ اسکوائر میں ایک جشن کا اہتمام کیا گیا، جس میں میں نے خود بھی شرکت کی۔

روس نے تین برس تک یوکرین میں جاری فوجی مہم کو انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھایا، جس کا مقصد کم سے کم شہری نقصان کے ساتھ فوجی مقاصد حاصل کرنا تھا۔ اس دوران مغرب نے اس تنازعے کو حل کرنے کے بجائے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا اور کرائے کے فوجی بھیجنے سمیت اپنا جدید ترین اسلحہ یوکرین کو فراہم کیا۔ روس بارہا کہتا رہا کہ کوئی بھی مغربی ہتھیار یوکرین میں جاری روسی فوجی مہم کے نتائج تبدیل نہیں کرسکتا، مگر سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو مسلسل ہتھیار فراہم کیے، جن میں ہیمارس میزائل، اٹیکمز میزائل، اور جدید F-16 لڑاکا طیارے بھی شامل تھے۔ مگر نتیجہ وہی نکلا — روسی فوج مسلسل پیش قدمی کرتی رہی اور علاقوں کو یوکرینی تسلط سے آزاد کراتی رہی۔
امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، فرانس سمیت متعدد مغربی ممالک یہ وعدہ کرتے ہوئے یوکرین کو ہتھیار دیتے رہے کہ اب کی بار روس کی فوجی قوت کو دھچکا لگے گا اور روس کمزور ہو کر فوج واپس بلا لے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ اس دوران تقریباً تمام یورپی اور نیٹو ممالک نے روس پر معاشی پابندیاں عائد کردیں، سوئفٹ مالیاتی نظام سے روس کو خارج کردیا، روسی تیل و گیس سمیت توانائی کے منصوبوں پر پابندیاں لگائیں، روس سے سستے داموں توانائی لینے والے ممالک کو ہراساں کیا گیا اور دھمکایا گیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں معلوماتی جنگ چلی، جس میں مغربی میڈیا روس کو ولن اور یوکرین کو مظلوم ہیرو کے طور پر دکھانے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر ان تمام اقدامات کے باوجود روس منظم رہا اور صدر پوتن کی بہترین حکمتِ عملی کے باعث ثابت قدم اور سرخرو رہا۔
یہاں میں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ مغرب کی جانب سے مینسک معاہدے کا مقصد دونباس میں قیام امن نہیں تھا بلکہ وقت حاصل کرنا تھا تاکہ روس کے خلاف فوجی تیاری مزید مضبوط کی جاسکے۔ اس بات کا اعتراف خود سابق جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے کیا کہ مینسک معاہدے کا مقصد وقت حاصل کرنا تھا تاکہ یوکرینی فوج کی تنظیم نو مزید مضبوط ہوسکے۔ مغرب کبھی بھی یوکرینیوں کا حمایتی یا دوست نہیں رہا، جس کی مثال سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا وہ جملہ ہے کہ “یوکرین کو آخری یوکرینی تک لڑنا ہے۔” ان باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ مغرب یوکرین کا دوست نہیں بلکہ اسے روس کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
میں نے اس تنازعے کے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ روس کو فوجی میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی، اور یہی وجہ ہے کہ یوکرینی جنگ آج ختم ہو یا سو برس بعد، یہ جنگ روس کی شرائط پر ہی ختم ہوگی۔ الاسکا میں روسی صدر پوتن کی امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہو یا حالیہ جاری مذاکراتی عمل — روس اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یوکرین کے موجودہ صدر، جن کی اب قانونی حیثیت بھی ختم ہوچکی ہے، بہتر ہوگا کہ ملکی مفاد کی خاطر اقتدار چھوڑ کر جنگ ختم کردیں۔ روس یوکرین سے تقریباً پوری ساحلی پٹی لے چکا ہے۔ ماریوپول، بخموت، بحیرۂ آزوف، اور اب سب سے اہم شہر پوکروسک پر روس کے کنٹرول کے بعد یوکرین کی صورت حال انتہائی کمزور ہوچکی ہے۔ یوکرین میں موجود غیر قانونی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ان کے مغربی حواری اگر واقعی یوکرین سے مخلص ہیں تو انہیں چاہیئے کہ یہ جنگ ختم کریں اور روس کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنے باقی ملک کو بچائیں۔ ورنہ میرا تو ایک ہی بیان ہے — یوکرینی جنگ آج ختم ہو یا سو سال بعد، یہ جنگ ختم ہوگی صرف روس کی شرائط پر۔