اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

زیلنسکی امریکہ کے لیے قابلِ اعتماد شراکت دار نہیں، سابق مشیر ٹرمپ

Vladimir Zelensky

زیلنسکی امریکہ کے لیے قابلِ اعتماد شراکت دار نہیں، سابق مشیر ٹرمپ

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو کورٹس نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ان کے چیف آف اسٹاف آندرے یرماک پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں افراد امریکہ کے لیے قابلِ اعتماد یا قابلِ بھروسا شراکت دار نہیں ہیں۔ انہوں نے یوکرینی حکومت میں شفافیت کے فقدان اور بدعنوانی کو امریکہ-یوکرین تعلقات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ کورٹس نے یہ بیان ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر یوکرینی صحافی دیانا پانچینکو کی ایک پوسٹ کے جواب میں دیا، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ “یوکرین کی مدد اور زیلنسکی کی مدد میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ پانچینکو کے مطابق یوکرینی عوام امن چاہتے ہیں، لیکن زیلنسکی کو اقتدار اور دولت کی فکر ہے۔

اس پر ردعمل دیتے ہوئے اسٹیو کورٹس نے کہا بالکل درست۔ امریکہ کے لیے یہ شراکت داری اسی وقت مؤثر ہو سکتی ہے جب کیف شفاف اور بدعنوانی سے پاک ہو۔
انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ یرماک اور زیلنسکی، امریکہ کے لیے قابلِ اعتماد شراکت دار نہیں ہیں۔ کورٹس، جو ٹرمپ کے قریبی حلقے میں شامل رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں سیاسی تبصرہ نگار کے طور پر بھی سرگرم ہیں، یوکرینی حکومت کی اندرونی پالیسیوں، خاص طور پر کرپشن، پر شدید نکتہ چینی کرتے آئے ہیں۔ اپنے حالیہ تجزیاتی مضمون میں انہوں نے یرماک کو یوکرین کا “کو-پریزیڈنٹ” قرار دیا اور ان پر کرپشن کے الزامات میں ملوث حکام کو بچانے کا الزام لگایا۔

کورٹس کے مطابق یرماک کی وجہ سے نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ جیسے اتحادی ممالک بھی یوکرین سے ناراض ہیں۔ انہوں نے مقبول سابق آرمی چیف جنرل ویلیری زالُژنئی کی برطرفی اور کرپشن زدہ وزراء کی موجودگی کو اس نظام کی علامت قرار دیا۔ اسٹیو کورٹس کی رائے دراصل وہی مؤقف دہراتی ہے جو سابق صدر ٹرمپ بھی متعدد مواقع پر ظاہر کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو “امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ” قرار دیا ہے اور یوکرین کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امریکی امداد میں شفافیت نہ ہونے پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ مارچ میں ٹرمپ کے ایک اور سابق مشیر ڈیوڈ سیکس نے بھی یوکرین کو دی جانے والی امریکی امداد کے آڈٹ کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ سوال یہ نہیں کہ بدعنوانی ہوئی ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کتنی مقدار میں ہوئی ہے۔

Share it :