شاہ نواز سیال
ترقی پذیر ممالک کے ترقی یافتہ نہ ہونے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کے باشندوں میں خصوصیات کا تعین کیے بغیر پسماندہ ذہن رکھنے والے افراد دولت کا بہاؤ اور انسانی جھکاؤ دیکھ کر بچے کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے آج کا بچہ ،بچے کھچے ذہن سے تخلیقی جوہر دکھانے سے قاصر ہے-
قارئین آپ کے ذہن میں ابھرتے ہوئے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ہم نے معاشرے میں روشنی کا کام کرنے والی عہد ساز شخصیت کا سہارا لیا جو بطور ماں،بطور استاد،بطور محقق اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہی ہیں- پروفیسر ڈاکٹر ثمرہ مسعود صاحبہ بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان میں تعینات ہیں ،آپ نے پی ایچ ڈی انفیکشن اسٹڈیز اور امیونولوجی میں لیڈن یونیورسٹی آف نیدرلینڈز سے کی ،2002 ء سے تعلیم اور تحقیق سے وابستہ ہیں، ہزاروں کی تعداد میں طلباء کو پڑھایا اور مختلف تحقیقی شعبہ جات میں سینکڑوں طلباء نے ان کی نگرانی میں ریسرچ کا کام کیا –
ڈاکٹر ثمرہ مسعود صاحبہ کے والد ملازمت سے وابستہ تھے جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحبہ کو تعلیم کے حصول کے لیے مسلسل ہجرت کا سامنا کرنا پڑا، ابتدائی تعلیم فیڈرل سکول سے حاصل کی ،میٹرک جہلم ہائی اسکول سے کی ،بی ایس سی مظفرگڑھ کالج سے کی اور 1997ءمیں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم ایس سی ذولوجی کی ڈگری حاصل کی ،کچھ عرصے کے بعد گورنمنٹ کالج گرلز لیہ بطور ذولوجی لیکچرار تعینات ہوئیں ،گولڈمیڈلسٹ ہونے کی وجہ سے مشتہر کی گئی اسامی پر 2003ءبہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا حصہ بنیں ،فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 2012ء میں اپنے بچوں کے ہمراہ لیڈن یونیورسٹی آف نیدرلینڈز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی-
ڈاکٹر ثمرہ مسعود صاحبہ کے مطابق پاکستان کا نظام تعلیم عالمی نظامِ سے بہت مختلف ہے وہاں بچے کی تعلیم ضروری ہے یہاں لاکھوں کی تعداد میں بچے کلاس رومز سے باہر ہیں ،ورکشاپس پر مختلف جگہوں پر کام کاج کی شکل میں ،وہاں حکومتیں ذمہ داری لیتی ہیں یہاں سوائے والدین کے کوئی اور ذمہ داری لینے والا نہیں یہی وجہ ہے سب لوگ معاشرتی مسائل کو بھگت رہے ہیں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے –
یہاں کا تعلیم نظام اس طرح اثر انداز نہیں ہورہا جس طرح اثر انداز ہونا چاہیے ،میرے خیال میں یہاں بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور نکھارنے کا موثر نظام موجود نہیں ہے ،بس رٹا سسٹم ہے جب تک ہم تعلیمی نظام میں ریفارمز لیکر نہیں آتے تب تک ہم تعلیمی نظام میں کوئی بہتری نہیں لاسکتے ،بہتری تب آئے گی ،جب بچے کی تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے ،یہاں کے سبھی والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانا چاہتے ہیں ,جبکہ چاہیے تو یہ تھا کہ بچے کو فیصلہ کرنے دیتے ہوسکتا ہے بچہ اچھا لکھاری بننا چاہتا ہوں،اچھا پینٹر بننا چاہتا ہوں اور اسپیکر بننا چاہتا ہوں، دوسرا ڈاکٹر ثمرہ مسعود صاحبہ کے خیال میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کوئی کونسلنگ کا باقاعدہ کوئی نظام نہیں ہے جبکہ پورپ میں یا باقی دنیا میں باقاعدہ بچے کی کونسلنگ کی جاتی ہے,یہاں کے بچے کا ذہن بن چکا ہے کہ تعلیم صرف پیسہ کمانے کے لیے حاصل کرنی ہے پھر شعور کہاں سے آئے ،جب تک تعلیم کے مقصد سے لوگ غافل رہیں گے غفلت اور ناکامی مسلسل پیچھا کرتی رہے گی ،یہی وجہ ہے کہ ہم مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں-
ڈاکٹر ثمرہ مسعود صاحبہ کے مطابق ہم تعلیمی حوالے سے دنیا سے بہت پیچھے ہیں ،یہاں لیبارٹریز اور کتب خانوں میں سہولیات کا فقدان ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا بچہ تحقیق سے دور بھاگتا ہے اس کے علاؤہ ملک بھرمیں نجی یونیورسٹیز کی بھر مار ہے اب تو سرکاری یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ نجی یونیورسٹیز کے بھی جگہ جگہ ہولڈنگ بورڈ دکھائی دیتے ہیں جہاں واضح الفاظ میں درج ہوتا ہے کہ اب ڈگری آپ کے شہر میں ،ڈاکٹر صاحبہ کے مطابق پاکستان میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اپنے بنائے ہوئے طور طریقوں پر سختی سے عمل کرائے جو ان کا فیکلٹی آف ٹیچنگ کے حوالے سے مروجہ طریقہ کار ہے بعض جگہوں پر نقائص دیکھے گئے ہیں بہت ساری نجی یونیورسٹیز میں چراغ تلے اندھیرا ہے-