اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

“فلسطین کی حمایت پر گیری لینیکر کو نوکری سے نکال دیا گیا: بی بی سی کا متنازعہ اقدام”

"فلسطین کی حمایت پر گیری لینیکر کو نوکری سے نکال دیا گیا: بی بی سی کا متنازعہ اقدام"

انٹرنیشنل ڈیسک (صدائے روس)

برطانوی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان اور مشہور نشریاتی ادارے بی بی سی کے مقبول شو کے میزبان گیری لینیکر کو فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا مہنگا پڑ گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، گیری لینیکر کو بی بی سی نے اس وقت نوکری سے فارغ کر دیا جب انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر فلسطین کی حمایت میں ایک پوسٹ شیئر کی۔ اس پوسٹ میں ایک تصویری عنصر شامل تھا، جسے بعض حلقوں نے یہودی مخالف قرار دیا۔

گیری لینیکر، جو کہ 64 سال کے ہیں، نہ صرف انگلینڈ کے سابق فٹبال کپتان ہیں بلکہ فٹبال نشریات کی دنیا میں سب سے نمایاں پریزنٹرز میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ بی بی سی کے ساتھ کئی دہائیوں سے منسلک تھے اور ادارے کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اینکر بھی تھے۔

فلسطین حمایتی پوسٹ کے بعد گیری لینیکر پر مختلف بین الاقوامی یہودی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے شدید دباؤ ڈالا گیا، جس کے بعد بی بی سی نے ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ گیری لینیکر نے اپنی پوسٹ پر معذرت کر لی تھی، مگر ادارے نے انہیں سیزن کے اختتام پر علیحدگی کا مشورہ دے دیا۔

یاد رہے کہ گیری لینیکر نے اس سے قبل بھی برطانوی حکومت کی مہاجرین سے متعلق سخت پالیسیوں پر تنقید کی تھی، جس کے نتیجے میں انہیں عارضی طور پر آف ایئر کیا گیا تھا۔

اس تازہ ترین اقدام کو آزادی اظہار رائے کے تناظر میں ایک اہم اور متنازعہ واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین، انسانی حقوق کے کارکنان اور متعدد بین الاقوامی شخصیات نے گیری لینیکر کے حق میں آواز بلند کی ہے، اور بی بی سی کے اس اقدام کو جانبدارانہ اور آزادی اظہار کے خلاف قرار دیا ہے۔

گیری لینیکر کا مؤقف یہ ہے کہ انسانی حقوق اور مظلوموں کی حمایت کسی خاص مذہب یا قوم کے خلاف نہیں بلکہ انصاف اور انسانیت کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔

یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب دنیا بھر میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں، اور مشہور شخصیات بھی اپنے پلیٹ فارمز سے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ گیری لینیکر کی نوکری سے برخاستگی نے اس بحث کو مزید گہرا کر دیا ہے کہ آیا آزادی اظہار واقعی ایک عالمی حق ہے یا صرف مخصوص حلقوں کے لیے محفوظ۔

Share it :