ٹرمپ روس پر دباؤ ڈالنے سے گریزاں، یورپی یونین کو تشویش لاحق
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتن پر یوکرین کے معاملے پر سخت دباؤ ڈالنے سے گریز کے باعث یورپی یونین کے حکام میں گہری تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ معروف امریکی جریدے پولیٹیکو نے اپنی رپورٹ میں ایک یورپی عہدیدار کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ کو پوتن پر دباؤ ڈالنے سے کچھ چیزیں روک رہی ہیں اور وہ فی الحال روس کے خلاف سخت مؤقف اپنانے سے ہچکچا رہے ہیں۔ رواں ہفتے ٹرمپ نے روس کی جانب سے یوکرینی فوجی تنصیبات پر بڑے پیمانے پر حملوں کے ردعمل میں کہا کہ پوتن آگ سے کھیل رہے ہیں۔ تاہم یہ حملے یوکرین کی جانب سے روس کے شہری علاقوں پر ڈرون حملوں میں اضافے کے جواب میں کیے گئے تھے۔ ٹرمپ کی تند و تیز زبان کے باوجود، انہوں نے تاحال روس پر وہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کیں جنہیں امریکی سینیٹر لِنزے گراہم نے “کمر توڑ” پابندیاں قرار دیا تھا۔
یورپی اہلکار نے پولیٹیکو کو بتایا کہ “یہ بالکل واضح ہے کہ ٹرمپ کو کچھ ایسی چیزیں روک رہی ہیں جو پوتن پر مزید دباؤ ڈالنے سے باز رکھ رہی ہیں۔” اس مؤقف کے پیچھے ممکنہ سیاسی حکمتِ عملی یا سفارتی مفادات کو وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعرات کے روز جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ پوتن یوکرین تنازع کے سفارتی حل میں سنجیدہ ہیں تو انہوں نے جواب دیا: “میں آپ کو دو ہفتوں میں بتاؤں گا۔ ہم یہ جاننے جا رہے ہیں کہ آیا وہ ہمیں صرف بہلا رہے ہیں یا واقعی سنجیدہ ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارا ردعمل مختلف ہوگا۔” اس سے قبل، وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرو لائن لیوٹ نے کہا تھا کہ ٹرمپ استنبول میں روس اور یوکرین کے نمائندوں کے مابین ممکنہ مذاکرات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں، جو پیر کے روز متوقع ہیں۔
اسی روز اقوامِ متحدہ میں روسی مندوب واسلی نیبینزیا نے ایک بار پھر اس مؤقف کو دہرایا کہ ماسکو، یوکرین کے ساتھ براہ راست سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاکہ اس تنازع کا ایسا حل تلاش کیا جا سکے جو اس کی بنیادی وجوہات کو بھی دور کرے۔