ہومکالم و مضامینمغرب کے آخری حربے

مغرب کے آخری حربے

مغرب کے آخری حربے

اشتیاق ہمدانی

روس میں جاری سینٹ پیٹرزبرگ انٹرنیشنل اکنامک فورم اپنے روایتی انداز شان وشوکت اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے خطاب کے بعد آج اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔
بحیثیت صحافی میں اس فورم کے مشکل حالات میں منقعد ہونے پر روس کی زبردست سفارتی، سیاسی اور تجارتی کامیابی ہی نہیں بلکہ مغرب پر برتری سمجھتا ہوں۔
جب تمام دنیا کا فضائی سفر متاثر ہے اور روس کے خلاف فیک نیوز کا زہریلہ پروپگنڈا پھیلایا جا رہا ہے ان حالات میں افریقہ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے مختلف کونوں سے روس آنا کوئی معمولی بات نہیں۔

لیکن جو بات ابھی تک دنیا اور خصوصاً روسی میڈیا کی نظر میں نہیں آئی اس کا ہم جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح سے نہ صرف اس فورم کو ناکام بنانے کے لئے امریکہ ، مغرب اور یوکرین نے کردار ادا کیا۔ گو کہ وہ فورم کو ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہویے لیکن انہیں بہت سے لوگوں کو فورم شریک ہونے سے روکنے میں کامیابی ملی۔
ایک تو امریکی ، یورپی اور یوکرینی اہلکار فورم سے بہت پہلے مختلف ممالک میں ایکٹیو رہے۔ مختلف ممالک میں تعینات ان کے سفارتی حکام باقاعدہ ان لوگوں سے ملاقاتیں کرکے دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ اس فورم میں شریک نہ ہوں ۔
اسی طرح روس میں آنے والے مسافروں زیادہ تر براستہ ٹرانزٹ آتے ہیں اور وہاں تیسرے ملک کی امیگریشن انھیں حکام انہیں روس جانے سے روکنے کے لئے سخت پریشان کرتے ہیں، یہ پریشانی سوالات جوابات کی حد تک ہی نہیں بلکہ ان پر لغو اور بیہودہ الزامات کی وجہ سے پولیس حراست کی شکل میں بھی سامنے آئے ہیں۔
ان ممالک میں قائم روسی سفارت خانوں سے مسافر کے رابطے اور روسی سفارت خانے کے اہلکاروں کی بھرپور کوشش کے بعد ہی وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔

بھارت سے آئی ہوئی ایسی ایک مندوبہ بریکس انٹرنیشنل فورم کی جانب سے نمایندگی کرنے والی پرونیماآندد ہیں۔
سینٹ پیٹرز برگ اکنامک فورم پر ہی چند سال قبل میری ملاقات پرونیماآندد سے ہوئی تھی۔ آج کی اس اتفاق ملاقات پر وہ بہت خوش ہوئیں۔

میں نے ان کا حال احوال اور سفر کے بارے جانے تو یہ جان کر سخت حیرانگی ہوئی کہ روس کو دنیا بھر میں مغربی فیک پروپیگنڈہ سے افریقی اور مشرقی ممالک میں کس قدر متاثر کیا جا چکا ہے۔
پرونیما آندد بتاتی ہیں کہ نیو دہلی سے شارجہ اور پھر شارجہ سے ماسکو اس طرح سے ان کے فلاٹس روٹس تھے وہ نیو دہلی سے جب شارجہ پہنچی تو سب کچھ ٹھیک تھا۔
مگر میں نے اپنی اگلی فلائٹ کےلئے پروسییڈ کیا میں سکیورٹی چینل بھی کلیر کر چکی تھی.
اور جب میں جہاز کی طرف جا رہی تھی تو مجھے روکا گیا کہ آ پ سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔

تو مجھے واپس سکیورٹی پوائنٹ کی طرف بلا لیا گیا۔
تو جب میں وہاں پہنچی تو نے کہا کہ فلائیٹ چلی جائے گی لوگ اندر انٹر ہو رہے ہیں
اپ مجھے روک رہے ہیں تو انھوں نے بولا کہ آ پ کے لئے کچھ سوالات ہیں ہمارے پاس کچھ ہائی لیول سے انسٹرکشن آئی ہیں کہ آپ کو روکا جائے

تو میں نے بار بار پوچھا کہ روکنے کی کیا وجہ ہے کیونکہ سکیورٹی اداروں سے آپ بحث یا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ تو ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کے ساتھ چلی گئی تو انہوں نے مجھے سیکورٹی چینل سے باہر نکال کر لے ائے۔
جب میں لگاتار ان سے پوچھتی رہی تو انہوں نے بولا کہ اوپر سے انسٹرکشن آ ئی ہے انکوائری ہوگی
اگر ان کی انکوائری میں سب کچھ ٹھیک ہے تو آپ جاسکیں گی۔
میں نے پوچھا میرے لئے فلائیٹ رکی رہے گی؟
ان کا کہنا تھا کہ انکوائری میں کچھ نظر آتا ہے تو آ پ کو اس کا جواب دینا پڑے گا تو میں چونکہ دوسرے ملک میں تھی تو میرا فرض بنتا تھا کہ میں ان سے تعاون کروں
تو مجھے رکنا پڑا ۔ آ دھ گھنٹہ گزر گیا تو پولیس آ ئی کچھ لیڈز پولیس ساتھ آئی انھوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا۔
مجھے آ رام سے بٹھائے رکھا تو میں نے پریشانی کے عالم میں کہا کہ میری فلائیٹ چلی جائے گی میرا اتنا انٹرنیشنل پروگرام ہےبہت اہم دن ہے انہوں نے کچھ سنا نہیں ۔اس ک بعد ایک گھنٹہ لگا دیا ایسے ہی بٹھائے رکھا۔

پھر ایک پولیس آفسر آیا انہوں نے مجھے سے بات چیت کی کہ آپ پہلے دوبئی آ ئیں تھیں ۔میں نے کہا میں کبھی بھی دوبئی نہیں آئی ۔تو انھوں نے بولا کہ آپ کا 1995 کا ایک کیس ہےاس کی وجہ سے ہم نے اپ کو روکا ہے.

میں نے کہا کہ میں 1995 میں کیا بلکہ کبھی بھی دوبئی نہیں آئی اور نہ میرا کوئی کیس ہے
اور نہ اس وقت میرا پاسپورٹ بنا تھا کہ جس کے یا کوئی ایسا کام تھا جس کی وجہ سے میں آ سکوں۔

تو کچھ ایسی منگھڑت کہانی لگ رہی تھی تو پھر انہوں نے بولا کہ اوپر دوبئی افس سے ہمیں فون آ یا ہے
کہ آپ کو یہاں روکا جائے انویسٹیگیشن ہو رہی ہے اگر انویسٹیگیشن میں سب کچھ صحیح ہو گا تو ہم آ پ کو جانے دیں گے۔

تو میں نے کہا کہ فلائیٹ تو چلی جائے گی میرے انتظار میں اتنی دیر تھوڑی رکی رہے گی؟
انہوں نے جواب دیا کہ اگر آپ انوسٹیگیشن میں صحیح ہیں تو ہم آپ کے لئے دوسری فلائیٹ ارنیج کر دیں گے اور اگر غلط ہے تو پھر آ پ کو روکا جائے گا۔

کچھ بات سمجھ میں نہیں آ ئی اور میرا فون اس وقت چارج نہیں تھا تو میں نے ان کو کہا کہ میرا فون چارج کرنے دیں۔
مجھے اپنے قونسلیٹ کو بلانے دیں یا ایڈووکیٹ کو بلانے دیں یہ تو میرے ساتھ زندگی میں اچانک سے پہلی بار ہو رہا ہے تو انہوں نے میرا موبائل لیا اور چارجنگ پر لگوایا موبائل اندر لے گئے تھے اور میرے پاس اس وقت وہاں بیٹھے رہنے کے سوا کئ حل نہیں تھا تو پھر کرتے کرتے ان کی اور پولیس آئی پھر وہ مجھے ایک جگہ پر لے کر گئے
جہاں پر شارجہ کے وائٹ عربی لباس میں تھے م ۔وہاں پر انہوں نے میرا آنکھوں کا ٹیسٹ کیا ۔ اور مجھ سے دو بار پوچھا آپ رشیا کیوں جارہی ہیں
میں نے ان کو بتایا کہ میں بریکس ممالک کی نمائندہ ہوں اور سینٹ پیٹرز برگ فورم پر جا رہی ہوں۔
پرونیما آندد کہتی مجھے یہ ہی محسوس ہوا کہ مجھے روس جانے سے روکنے کے لئے یہ ساری کاروائی ہو رہی ہے۔
اس کے بعد جب تک میرا موبائل چارج ہوا میں نے اپنے قونصلیٹ اور رشین ایمبیسی کو اور سب کو انفارم کیا ایڈووکیٹ کو انفارم کیا تو ان سب نے بیک سپورٹ لائن چالو کیا ۔
تو آدھے گھنٹے بعد انہوں نے بولا کہ سب کچھ ٹھیک ہے بائ چانس آ پ کے پاسپورٹ نمبر 1995 کے ایک کیس میں ایک جیسا نمبر ہے۔
اس لیے آ پ کو روکنا پڑا
ہم معذرت چاہتے ہیں۔

پرونیما آندد سے میں نے پوچھا آپ نے ان سے نہیں پوچھا کہ پاسپورٹ نمبر تاریخ پیدائش نام سب کچھ ایک جیسا کیسے ہو سکتا ہے؟
اور یہ بھی کہ 27 سال پہلے تو پاسپورٹ نمبرز کی سریل بھی کچھ اور ہوئی ہوگی۔

پرونیما آندد نے بتایا کہ بالکل یہ سوالات کئے ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر انھوں نے مجھے ائیرپورٹ اتھارٹی کے حوالے کیا اور میں ٹرانزٹ ہال میں واپس بھجوایا گیا جہاں میری اگلے دن کی فلائٹ کروائی گئی۔

پرونیما آندد کے مطابق جرمنی سے ان کے کچھ دوست آرہے تھے جنہیں وہاں ہی روک دیا گیا۔
اب آپ پرونیما آندد کی کہانی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سینٹ پیٹرز برگ فورم کو ناکام بنانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ اگر یہ پھر بھی آپ کو سمجھ نہ پائے تو صدر ولادیمیر پوتن کی تقریر سے چند منٹ قبل سارے الیکٹرانک سسٹم کو ہیک کرنے کی وجہ شاید آپ کو سمجھ اجائے۔
فورم کے دوسرے روز میں ایک ڈسکیشن میں شریک تھا جو روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا کی سربراہی میں ہوا۔ وہاں لوگ بتا رہے تھے کسی طرح امریکہ اور مغربی ممالک روسی کی حمایت کرنے والے باشندوں کو جھوٹے کیس بنا کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ اس ڈسکیشن بہت سے لوگوں نے اپنی رونگھٹے کھڑے کردینے والی کہانی سنائی، کس طرح وہ جیل گئے اور کیسے رہائی ملی۔
امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے شرم کی بات ہے کہ
انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کا امریکہ اور مغرب سے روس دوست باشندوں کے خلاف سلسلہ امریکہ مغرب سے ہوتا ہوا مڈل ایسٹ تک جا پہنچا ہے۔ لیکن اب مغرب کا جان لینا چاہئے کہ مغرب کا فیک اور زہریلہ میڈیا پروپیگنڈہ ہار چکا ہے۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل