امریکہ یوکرین کو پیسے نہیں دیگا، بائیڈن نے 350 ارب ڈالر ضائع کیے، ٹرمپ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیبنٹ اجلاس میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ امریکہ اب یوکرین بحران میں مالی مدد فراہم نہیں کر رہا اور یورپی ممالک خود اس کی ذمہ داری اٹھا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ “ہم اب اس جنگ میں مالی طور پر ملوث نہیں ہیں”، جبکہ سابق صدر جو بائیڈن نے 350 ارب ڈالر “کینڈی کی طرح” بانٹ دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نیٹو ممالک کو ہتھیار مکمل قیمت پر بیچتی ہے، جو یورپی ممالک خود ادا کرتے ہیں اور پھر یوکرین کو فراہم کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کیبنٹ اجلاس کے دوران صحافیوں سے بات چیت میں کہا، “جیسا کہ آپ جانتے ہیں، روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا ایک مسئلہ ہے جسے ہمارے لوگ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اب اس جنگ میں مالی طور پر ملوث نہیں ہیں۔” انہوں نے سابق انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن نے 350 ارب ڈالر کی بھاری رقم دی، جس میں بہت سی نقدی اور سامان شامل تھا۔ “میں کچھ بھی مفت نہیں دیتا۔ ہم نیٹو کو سامان بیچتے ہیں، یورپی ممالک 100 فیصد قیمت ادا کرتے ہیں، پھر وہ اسے یوکرین کو دیتے ہیں یا جو بھی کرتے ہیں۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ اس تنازعے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور “میں نے آٹھ جنگیں حل کی ہیں، یہ نویں ہو گی۔ ہمارے لوگ اس وقت روس میں موجود ہیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کیا ہم اسے حل کر سکتے ہیں۔
یہ بیان کریملن میں کل ہونے والی پانچ گھنٹے طویل ملاقات کے فوراً بعد سامنے آیا ہے، جہاں صدر ولادیمیر پوتن نے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیف وٹکوف اور جیریڈ کشنر سے یوکرین امن پلان پر تفصیلی بات چیت کی۔ وائٹ ہاؤس ذرائع کے مطابق، امریکی وفد نے ماسکو سے واپسی پر صدر ٹرمپ کو بریفنگ دی، جس کے بعد یہ بیان جاری کیا گیا۔ ٹرمپ کی طرف سے “ہمارے لوگ روس میں موجود ہیں” کا اشارہ وٹکوف اور کشنر کی ماسکو روانگی کی طرف ہے، جو امن مذاکرات کا حصہ ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اعلان ٹرمپ کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جس میں یورپ کو یوکرین کی مالی امداد کی ذمہ داری مکمل طور پر سونپی جا رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں بھی یوکرین کو براہ راست امداد دینے پر تنقید کی تھی اور اب دوسرے دور میں یہ پالیسی مزید سخت ہو گئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یورپی ممالک نیٹو کے ذریعے ہتھیاروں کی مکمل قیمت ادا کر رہے ہیں، جو امریکہ کے لیے فائدہ مند ہے۔ دریں اثنا، یوکرین کے صدر وولوڈیمیر زیلنسکی نے اس بیان پر ردعمل میں کہا کہ وہ امریکی قیادت کے شکر گزار ہیں مگر امن کے لیے حقیقی مذاکرات کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین نے بھی تسلیم کیا کہ وہ یوکرین کی امداد کا بڑا حصہ اٹھا رہے ہیں، لیکن ٹرمپ کی پالیسی سے نیٹو اتحاد پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کے بیان پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یوکرین کی امداد روکنا روس کو فائدہ پہنچائے گا۔ دوسری طرف ری پبلکنز نے صدر کی پالیسی کی حمایت کی اور کہا کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ نے 2022 سے اب تک یوکرین کو تقریباً 175 ارب ڈالر کی امداد دی، جس میں سے نصف فوجی سامان تھا، مگر ٹرمپ نے اسے 350 ارب قرار دے کر مبالغہ آرائی کی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بیان امن مذاکرات میں امریکہ کی پوزیشن کو مضبوط کرے گا اور روس پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ سمجھوتہ کرے۔