اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

دہلی یونیورسٹی کے کالج میں گرمی سے نجات کے لیے گائے کے گوبر کا استعمال!

دہلی یونیورسٹی کے کالج میں گرمی سے نجات کے لیے گائے کے گوبر کا استعمال!

انٹرنیشنل ڈیسک: (صدائے روس)

بھارت کی ممتاز درسگاہ دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج نے گرمی سے بچاؤ کے لیے ایسا دیسی حل اختیار کر لیا جس نے تعلیمی حلقوں میں حیرت اور بحث کی فضا پیدا کر دی ہے۔

لکشمی بائی کالج کی پرنسپل پروفیسر پرتیوش وتسلا نے اپنی نگرانی میں ایک کلاس روم کی دیواروں پر گائے کا گوبر لگوایا، جس پر طلبہ، اساتذہ اور سوشل میڈیا صارفین نے شدید ردِعمل دیا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب پرنسپل نے خود اس اقدام کی ویڈیو اساتذہ کے واٹس ایپ گروپ میں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ “سی بلاک” کے ایک کمرے میں شدید گرمی کی شکایات کے باعث ایک ’’دیسی حل‘‘ آزمایا جا رہا ہے۔

انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ گائے کا گوبر قدرتی انسولیٹر ہوتا ہے، جو روایتی طور پر گھروں کو گرمی میں ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام سائنسی و قدرتی بنیادوں پر گرمی کے توڑ کے لیے کیا گیا، اور یہ ایک ’’ایکو فرینڈلی‘‘ تجربہ ہے۔

کالج انتظامیہ کا مؤقف بھی سامنے آیا ہے کہ یہ صرف ایک ’’ٹیسٹ پروجیکٹ‘‘ ہے جس کا مقصد گرمی سے سستی اور قدرتی بچاؤ کی کھوج ہے، تاہم اس پر باقاعدہ مشاورت کے بغیر عمل درآمد پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر پرنسپل کے اس عمل کو ’’ناقابلِ قبول‘‘ اور ’’غیر سائنسی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ کئی تعلیمی ماہرین اور طلبہ تنظیموں نے اس فیصلے کو مضحکہ خیز اور تعلیم کے ماحول کی توہین قرار دیا ہے۔

“جدید تعلیم گائے کے گوبر سے کلاس رومز کی تزئین کا مشورہ نہیں دیتی، بلکہ سائنسی بنیادوں پر وینٹیلیشن،  اس واقعے نے تعلیمی اداروں میں سائنسی تحقیق اور روایت کے درمیان توازن کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کر دیا ہے۔ایئرکنڈیشننگ یا تھرمل انسولیشن جیسے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔”

کیا گائے کے گوبر جیسے دیسی طریقے واقعی ماحولیاتی چیلنجز کے خلاف سستا اور مؤثر حل ہو سکتے ہیں؟ یا پھر یہ روایتی عقائد پر مبنی فیصلے جدید تعلیم کے وقار کو متاثر کر سکتے ہیں؟

اس غیرمعمولی اقدام نے بہرحال دہلی یونیورسٹی کی دیواروں سے نکل کر پورے ملک میں بحث چھیڑ دی ہے۔

Share it :
Translate »