انٹرنیشنل ڈیسک (صدائے روس)
فلسطینی تنظیم حماس نے ایک بار پھر ثالثی مذاکرات کے دوران اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ایک متوازن اور قابلِ عمل حل کی پیشکش کر دی ہے۔
حماس کے سینئر رہنما طاہر النونو نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مصر، قطر اور امریکا کے ثالثوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد واپسی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے تیار ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بند کرے، اپنی افواج واپس بلائے اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
حماس کا مؤقف: مسئلہ تعداد کا نہیں بلکہ اسرائیلی ضد کا ہے
طاہر النونو نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ مسئلہ یرغمالیوں کی تعداد کا نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی جانب سے معاہدے پر عمل درآمد سے مسلسل انکار اور جنگ جاری رکھنے کے ارادے کا ہے۔ حماس کے مطابق اسرائیل جان بوجھ کر مذاکرات کو ناکام بنانے کے لیے غیرحقیقی شرائط پیش کر رہا ہے۔
انہوں نے اسرائیلی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حماس ہتھیار نہیں ڈالے گی اور یہ موضوع مذاکرات کا حصہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ اگر جنگ بندی پر اتفاق ہو جائے تو اس پر عمل درآمد کے لیے اسرائیل کو عالمی ضمانتیں دی جائیں۔
اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ: امریکا کی جنگ بندی پر اسرائیل کو آمادہ کرنے کی کوشش
اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے حماس کے سامنے ایک نیا معاہدہ رکھا ہے، جس کے تحت 10 زندہ یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل کو جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر مذاکرات کے لیے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
تاہم رپورٹس کے مطابق مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہیں، کیونکہ یرغمالیوں کی اصل تعداد پر اختلاف ہے۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں 58 افراد یرغمال ہیں، جن میں سے 34 کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیلی مہم جو گروپ کا ردِعمل: مرحلہ وار رہائی ناقابلِ قبول
دوسری جانب اسرائیل میں یرغمالیوں اور لاپتہ افراد کے خاندانوں کے ایک مؤثر فورم نے مرحلہ وار رہائی کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی قیمتی وقت ضائع کرتی ہے اور باقی یرغمالیوں کی جانوں کو مزید خطرے میں ڈالتی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جنگ کا مکمل خاتمہ اور تمام یرغمالیوں کی ایک ساتھ فوری رہائی ہی واحد مؤثر اور قابلِ قبول حل ہے۔
پچھلی جنگ بندی کی ناکامی اور موجودہ چیلنجز
واضح رہے کہ جنگ بندی کا پہلا معاہدہ 19 جنوری 2024 کو ہوا تھا جو تقریباً دو ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ممکن ہوا، لیکن بعد میں یہ معاہدہ ناکامی سے دوچار ہو گیا۔
موجودہ حالات میں حماس اور ثالثی کردار ادا کرنے والے ممالک ایک بار پھر جنگ بندی کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں، لیکن اسرائیلی ضد اور سیاسی دباؤ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔
کیا اسرائیل عالمی دباؤ کے سامنے سر جھکائے گا؟ کیا انسانی جانوں کی قدر کی جائے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھی پوری دنیا کی توجہ کے مرکز بنے ہوئے ہیں۔