ہومکالم و مضامینڈائپر کو عادت نہ بنائیں

ڈائپر کو عادت نہ بنائیں

از فیض عالم
کراچی پاکستان

دور جدید کی ایک ایسی ایجاد جس کو فائدہ مند سمجھ کر زندگی میں ضرورت کی بجائے عادت کے طور پر اپنایا جانے لگا۔ کچھ سالوں پہلے تک ان پڑھ مائیں بچوں کی پوٹی اور یورین کے ٹامنگز کا اندازہ لگا لیا کرتی تھیں گھروں میں نہالچوں کا رواج تھا بستروں پر پلاسٹک اور اس کے اوپر الگ سے چادر بچھا کر بچوں کو سلایا جاتا تھا اور تقریباً ایک ڈیڑھ سال کی عمر تک بچے پوٹی چئیر پر بیٹھنے کے قابل ہوجاتے پھر بچوں کی ایک عادت سی بن جاتی اور وہ ہر جگہ فراغت حاصل کرنے کی بجائے اپنے ٹائمنگ اور پوٹی چئیر پر ہی فارغ ہونے کو ترجیح دیتے اور اس سب کا سہرا اکیلی ماں کے سر جاتا کیوں کہ وہ ہی بچے جو ان عادات کا عادی بناتی۔ جس زمانے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے یوٹیوب اور دیگر ذرائع موجود نہ تھے اس وقت کی ماؤں کی پرورش کرنے کی حکمت عملی آج کی ماؤں سے زیادہ کامیاب تھی۔

آج کے دور میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنے کا رجحان زیادہ بڑھ گیا کبھی پڑھائی تو کبھی جاب کی غرض سے مشینی مصروف زندگی میں ماؤں کے پاس شاید وقت نہ رہا کہ بچے کی رفائے حاجت کے ٹائم ٹیبل بنائے جائیں تو انہوں نے اس پیمپر کا سہارا لیا جو کہ انتہائی ضرورت کے تحت استعمال ہونا چاہیے تھا یعنی جب تین چار گھنٹوں کے لیے باہر جانا پڑے خاص کر شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں، کسی ایسی جگہ جہاں واشروم کا بہتر انتظام نہ ہو یا پھر ایک سال سے کم عمر بچوں کے لیے۔
دور جدید کی ماؤں نے اس ضروت کو لائف اسٹائل کے طور پر اپنایا۔ اب اس کا نقصان کیا ہوا؟ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈائپرز جو کہ پانچ سے آٹھ گھنٹوں تک پیشاب کو جزب کیے رکھتا ہے بالفرض ماں بچے کا پیمپر ہر دو گھنٹے بعد بدل رہی ہے اور اس دو گھنٹے کے دوران بچے نے دو بار بھی پیشاب کیا تو سوچیں بچہ دو گھنٹوں تک ناپاکی کی حالت میں گھومتا رہا پورے گھر میں ہر جگہ بیٹھا اسی حالت میں کھانا کھایا کتنے آرام سے بچے نے ناپاکی کو قبول کیا اور اس کی ظاہری صفائی کس قدر متاثر ہوئی.

پھر انڈر لیگز بوڈی پارٹز کتنی دیر تک اس گندگی میں سنے رہے اور کتنی شیطانی مخلوقات بچے کے ارد گرد منڈلاتی رہیں۔ پھر مائیں شکایت کرتی ہیں کہ بچے کمزور ہیں، رات کو ڈر جاتے ہیں، چڑچڑے رہتے ہیں، ضدی ہورہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بچوں کی باطنی اور ظاہری پاکی کو ہر طرح سے اس پیپمر کے اندھا دھن استعمال نے نقصان پہنچایا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے اور سوچیں بچہ بچپن سے ہی جب ناپاکی کو برا محسوس نہیں کرے گا تو صفائی کے کانسیپٹس کو کیسے سمجھ پائے گا؟ المیہ تو یہ ہے کہ اکثر گھرانوں میں پیمپرز چھے سے آٹھ سال تک بچوں کی جان نہیں چھوڑ رہا کسی بلا کی مانند بچوں سے چمٹا ان کی زہنی،جسمانی اور روحانی صحت کو تباہ رک رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی روزانہ ڈائپر کا استعمال ایک بڑا خرچہ بن کر بجٹ کا حصہ بن گیا۔

دور حاضر کی پڑھی لکھی باشعور مائیں اس ضمن میں زمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ شروع سے ہی بچوں کی رفائے حاجت کے ٹائم ٹیبلز سیٹ کریں۔پیپمر کا استعمال انتہائی ضرورت کے وقت کریں مثال کر طور پر گھر میں دعوت ہے اور آپ کئی گھنٹوں تک کام میں بزی ہوں گی یا خود کسی شادی یا باہر ایسی جگہ جانا ہو جہاں واشروم کا مناسب بندوبس نہ ہو۔ ہمیشہ ایک سے زائد پیپمرز بیگ میں رکھیں ایسا نہ ہو کہ باہر گئے بچہ چار سے پانچ گھنٹے ایک ہی پیپمر میں کئی بار پیشاب کرے اور ناپاک رہے، سوتے وقت بچے کو پیپمر پہنا کر نا سلائیں کہ بچہ رات میں پیشاب کرے اور پیپمر اس کے جسم سے لگا رہے بکل ایسا ہی ہے جیسے شیطان بچے کے ساتھ چپکا رہے۔رات کو رفائے حاجت کر کے سلانے کی عادت بنائیں۔ پیمپر کے خراب ہوتے ہی اسے فوری طور پر اتار دیں یا بدل دیں بچے کو یہ احساس کروائیں کہ گندگی کو فوراً صاف کرنا کتنا لازمی ہے۔ بچپن سے ہی بچوں کو پاکی ناپاکی کا فرق سمجھائیں۔ ڈائپرز کا محدود استعمال آپ کے بچے کی صحت اور بجٹ دونوں کے لیے مفید ہے۔
وما علینا الاالبلاغ

انٹرنیشنل