اشتیاق ہمدانی –
وطن عزیز میں جہان سیاست مورثیت برادری ازم اور مفادات گھر کر چکی ہے ، جہاں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کر ان سے ووٹ دئیے بغیر ہی یہ حق واپس چھین لیا گیا، وہاں وطن عزیز سے باہر دوسرے کئی ممالک میں یہ پاکستانی اپنی صلاحیتوں کا رنگ جما رہے ہیں۔ نہ انہیں کوئی برادری سپورٹ حاصل ہے نہ ہی اور کوئی اتنے بڑے لینن لارڈ ہیں صحت مند اور جمہوری معاشروں میں آپ کی سوچ اور فکر ہی آپ کی کامیابی کا زینہ بناتی ہے۔
یورپ کے کٹھن معاشی حالات اور روس کے ساتھ جنگ کی ڈر کے بعد خوف کے سائے میں جہاں یورپ بھر میں ہلچل برپا ہے وہیں سویڈن میں عام انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ یوں تو ہر چار سال بعد سویڈن میں انتخابات ہوتے ہیں مگر اس بار سویڈن کی سیاست میں کچھ نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سویڈن جہاں دنیا بھر میں ایک آزاد ، خودمختا ر اور ترقی یافتہ معاشرےکے طور پر جانا جاتا تھا اب وہیں دنیا بھر میں سویڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ، گزشتہ سال سویڈن کے ایک تحقیقاتی ادارے بروتسفر بیگاندے رودت نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد اور گینگ وار جرائم میں فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد سویڈن میں یورپ کے دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہے، دوسری جانب دنیا بھر کے میڈیا میں یہ بات بھی اچھالی گئی کہ سویڈن کی سوشل سروسز غیرملکی نژادبچوں کواپنی تحویل میں فقط اس لئے بھی لےلیتی ہے کہ والدین نے اپنے بچوں کو کسی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کی ہو، اور پھر سویڈن ایک عالمی مسئلہ کا دوچار یوں بھی رہا کہ رواں برس سویڈن بھر میں قرآن سوزی کےواقعات رونما ہوئے۔
مذکورہ ہر معاملے میں ایک پہلو بہت اہم رہا کہ سویڈن میں تمام تر معاشرتی برائیوں کا زمہ دارغیرملکیوں کو ٹھرایا گیا، جرائم کی بات کی جائے تو قتل و غارت گری ہو یا ہنگامہ آرائی یا پھر ہو بچوں کے ساتھ والدین کا ناروا سلوک ہر معاملے کا زمہ دار غیر ملکی ہی ٹھرا۔یہ تمام تر تعصب پسندی جہاں سویڈن میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی اور امتیازی سلوک کی طرف اشارہ کرتی ہے وہیں سویڈن میں ایک مہاجرین مخالف سیاسی جماعت سویڈن ڈیموکریٹس کا تیسری بڑی جماعت کے طور پر ابھرنا اس بات کی تصدیق کردیتا ہے کہ سویڈش معاشرے میں غیر ملکیوں کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔مہاجرین اور غیرملکی نژاد سویڈش شہریوں کے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیشِ نظرسویڈن میں ایک ایسی سیاسی جماعت کی تشکیل عمل میں لائی گئی جو اقلیتوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھر رہی ہے، سیاسی جماعت جو پارٹیت نیانس کے نام سے جانی جاتی ہےاور اپنے منفرد منشور کی وجہ سے جہاں سویڈن کی دیگر اقلیتوں میں مقبولیت رکھتی ہے وہیں پاکستانی کمیونٹی بھی اس جماعت کی بھرپوری حامی ہے۔
سویڈن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے کبھی مقامی سیاست میں اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا جیسا حالیہ انتخابات میں دیکھا جارہا ہے، اس کی وجہ جہاں غیر ملکیوں کے بڑھتے ہوئے مسائل ہیں وہیں متحرک سماجی شخصیت زبیر حسین کا بطور امیدوارسیاست میں حصہ لینا بھی ہے۔ سویڈن میں مقیم پاکستانی حلقوں کا کہنا ہے کہ زبیر حسین کی کاوشوں نے کمیونٹی کو مقامی سیاست میں دلچسپی لینے میں اہم کردار ادا کیا۔ شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے زبیر حسین سے صدائے روس کے چیف ایڈیٹراشتیاق ہمدانی نے ان کی اس جدوجہد کے حوالے سے رابطہ کیا تو کچھ ایسے پہلو سامنے آئے جس پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔
کراچی کےعلاقے لیاری میں ایک مزدور کےگھرانے میں آنکھ کھولی ، ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچپن سے ہی محنت مزدوری اور یہاں تک کے مشکل حالات میں سڑکوں پر چپس فروخت کرکے کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز اور دادابھائی یونیورسٹی سے ایم بی اے کا امتحان پاس کیا جس کی بدولت پاکستان کے بینکنگ سیکٹر میں جگہ بنائی، ایم بی اے میں کی جانے والی ان کی ریسرچ کو جرمنی کے ایک جریدے میں بطور کتاب شائع کیا گیااور یوں انہوں نے بطور لکھاری اپنے کئیریر کا آغاز کیا، بطور مصنف زبیر حسین کی تین بڑی تصنیفات جرمنی میں شائع ہوئیں۔ زبیر حسین کی تحاریرمیں ہمیشہ سیاسی و سماجی مسائل کا پہلو نمایاں رہا اور اس کی بڑی وجہ ان کا سماجی کارکن کے طور پر معاشرے کے مسائل کے لئے اقدامات کرنا تھا۔
کراچی میں برٹش کونسل کے ایکیٹیو سیٹیزن پراجیکٹ میں حصہ لیا اور یوں باقاعدہ سماجی خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ کراچی کے علاقے لیاری ٹاؤن میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک سماجی ادارے لیارینز یوتھ ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس کی کاوشیں آج بھی جاری ہیں۔ پی ایچ ڈی کے لئے ترکی کے شہر اسنتبول کا رخ کیا، اور وہاں بھی باب عالم نامی ادارے کے ساتھ طلباء کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات انجام دیتے رہے ۔محنت اور جدوجہد کے سفر کو جاری رکھتے ہوئےسویڈن میں ہجرت کی جہاں وطنِ عزیز کا مثبت چہرہ ہر سطح پر متعارف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔
سویڈن میں پاکستان پروموشن نیٹ ورک یورپ کے نام سے ادارے کا قیام کیا جس کے ذریعے سویڈن میں ثقافتی میلے ہوں یا موسیقی ، تھیٹر ہو یا پاکستانی فلم انڈسٹری، پاکستانی مصنوعات کی برآمدات ہوں یا ورچیول نمائش، کمیونٹی مسائل ہو یا مسئلہ کشمیر یا پھر مسئلہ فلسطین ، سویڈن کے بے گھر افراد کے لئے مفت گرم کپڑے یا پھر کھانا ہر پلیٹ فارم پر پاکستانیت کا پرچار کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نہ صرف سویڈن یا یورپ میں پاکستان کامثبت چہرہ متعارف کروانے میں ان کے ادارے نے کردار ادا کیا بلکہ پاکستان میں پہلے اسکینڈے نیویائی طرزِ تعلیم کے ادارے کا قیام بھی انہی کے ادارے کی کاوشوں میں شامل ہے۔
مالمو انٹرنیشنل اسکول کےنام سے کراچی میں اسکینڈے نیویائی طرزِ تعلیم کے ادارے کی بنیاد رکھی گئی جہاں ضرورت اور قابلیت کی بنیاد پر بچوں کو اسکالرشپز کے ذریعے تعلیم مہیا کی جاتی ہے۔ شہرِ کراچی کی سڑکوں کو خوبصورت بنانے کے لئے بھی پاکستان پروموشن نیٹ ورک یورپ نے اپنا کردار ادا کیا ، شہر بھر کی اہم شاہراہوں پر علی سدپارا، مہدی حسن، جون ایلیا سمیت مشہور شخصیات کے پورٹریٹ ڈزائن کروا کر نا صرف ان لیجنڈز کو خراجِ تحسین پیش کیا بلکہ شہر کی رونقیں بحال کرنے میں اہم کردار بھی ادا کیا۔
پاکستان کے نام سے سویڈن کے بے گھر افراد میں گرم کپڑوں کی تقسیم کرکے پاکستان کی پہچان کو تقویت بخشی۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی اہمیت کا پہلو یورپ میں اجاگر کرنے کے لئے مقامی تھیٹر یالا دا کے ساتھ ملالہ کے عنوان سے ایک تھیٹر شو کا انعقاد کروایا جو نا صرف سویڈن بلکہ دنیا کے دیگر سات ممالک میں آن لائن اسٹریمنگ کے ذریعے نشر کروایا۔مذکورہ تھیٹر بعد ازاں سلسلہ وار پاکستان کےتعلیمی اداروں میں براہ راست نشر کروایا گیا اور پاکستانی طلبہ کو یہ باور کروایا گیا کہ ان کی تعلیمی جدوجہد کو دنیا بھر میں سراہا جاتا ہے۔پاکستان کی برآمدات کو یورپی منڈیوں تک لانے کے لئے زبیرحسین اور ان کے ادارے کی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، کرونا وبا کے دور میں جب سفری پابندیوں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبارِ زندگی مفلوج ہوئی اس دور میں پاکستان کی پہلی بین الاقوامی ورچیول راول ایکسپو میں سویڈن بھر سے بیشتر کمپنیوں کو ورچیول ایکسپو کا حصہ بنوایا اور یوں دو نوں ممالک کی کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور اسی سال پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا۔
پاکستان سے یورپ بھر میں برآمدات کی آسانی کے لئے یورپ کا پہلا ایکسپورٹ پورٹل لاؤنچ کروانے کاسہرا بھی زبیر حسین کی ٹیم ہی کےسر جاتا ہے۔ ایک ایسا ایکسپورٹ پورٹل لاؤنچ کروایا گیا جس کے ذریعے پاکستان کا ہر چھوٹا بڑا تاجر یورپ بھر کے کاروباری حلقوں تک ورچیول رسائی حاصل کرسکتا ہے۔ زبیر حسین کے مطابق پاکستان پروموشن نیٹ ورک یورپ کی بنیاد کا اصل مقصد ہے ہی پاکستان سے منسلک ہر چیز، شخصیت اور ثقافت کے ہر پہلو کو یورپ بھر میں بھرپور انداز میں متعارف کروانا ہےاور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے اس حوالے سے سویڈن کے شہر مالمو میں پاکستانی ثقافتی میلوں کا سلسلہ بھی شروع کیا ، ان کا کہنا ہے کہ ہم نے دنیا کے سب سے پرانے اور تاریخی پارک (فولکیٹس پارک)میں پہلا اور منفرد پاکستانی ثقافتی میلہ لگانے کا عزم کیا جو کہ کچھ وجوہات کی بنا پر کسی اور جگہ منعقد ہوا اس میلے میں ہم نے صوفی شامِ موسیقی کو بھی حصہ بنایا، اس حوالے سے لندن سے حاجی امیر خان قوال گروپ کو مدعو کیا گیا تھا، یہ مالمو شہر کے پاکستانیوں کے لئے ایک ایسا ایونٹ تھا جو کہ پچھلے چالیس سالوں میں کبھی منعقد نہیں ہوا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مالمو شہر ڈنمارک کے دارلحکومت کوپن ہیگن کے ساتھ ہے دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی کے لئے یہ روالپنڈی اور اسلام آباد کی طرح جڑواں شہروں کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لئے مالمو شہر میں کبھی کوئی بڑا ایونٹ منعقد نہیں ہوا لوگ زیادہ تر کوپن ہیگن میں منعقدہ تقریبات کو ترجیح دیتے تھے، یہاں تک کہ مالمو کی پاکستانی کمیونٹی نے سویڈن میں قائم سفارتخانے سے کبھی کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا ہمیشہ اپنے مسائل کے لئے کوپن ہیگن میں قائم پاکستانی سفارتخانے سے رجوع کیا جاتا رہا۔ زبیر حسین کا کہنا ہے کہ ہم نے اس تسلسل کا رکھ موڑا اور ہمارے شہر کی پاکستانی کمیونٹی اہمیت کو اجاگر کیا۔آج اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سویڈن کے شہر مالمو سے لے کر کیرونا تک تمام تر پاکستانی کمیونٹی یکجا ہونا شروع ہوگئی ہے اور اپنے مسائل کے لئے کمیونٹی سفارتخانے سے براہ راست روابط بھی قائم کئے ہوئے ہے۔
سویڈن میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے حوالے سے زبیر حسین کا کہنا تھا کہ سویڈن میں پاکستانی کمیونٹی فرسٹ جنریشن پاکستانی ہیں ، فرسٹ جنریشن مہاجرین کو جہاں انٹیگریشن کے بے تحاشہ مسائل لاحق ہوتے ہیں وہیں آمدن اور اخراجات کی مدبھیڑ میں ان کی تفریحات محدود ہو کر رہ جاتی ہیں ، اس لئے ہم نے کمیونٹی کی خدمات کے لئے آج تک جتنے بھی پروگرام کئے ہیں وہ بالکل مفت ہوتے ہیں، شامِ موسیقی ہو یا تھیٹر، مذہبی یا قومی تقریبات ، تھیٹر ہو یا پھر پاکستانی فلمیں ہم نے ہر تفریحات کے لئے سویڈن کی پاکستانی کمیونٹی کو مفت سہولیات فراہم کیں۔ جہاں تک سویڈن میں پاکستانی ثقافت کو قائم و دائم رکھنے کا تعلق ہے ہم نے ہر ممکن کوشش اور ہر سطح پر اپنی خدمات کا مظاہرہ کیا مگر جب بات آتی ہے کمیونٹی کی حقیقی خدمت کی تو یہ اس وقت ہی ممکن ہوسکتی ہے جب معاشرے میں انضمام کے مسائل کے حل کے لیے کمیونٹی کا ساتھ نبھایا جائے۔
کمیونٹی کے حقیقی مسائل اورسویڈن میں بڑھتے ہوئے امتیازی سلوک کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند دوستوں کی مشاورت سے زبیر حسین نے سویڈن کی سیاست میں حصہ لینے کا ارادہ کیا۔بوسنیا سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سمیر گوزیچ نے انہیں پارٹیت نیانس کی تشکیل کے حوالے سے معلومات فراہم کئیں اور مذکورہ سیاسی جماعت میں شمولیت کے لئے پارٹیت قیادت سے روابط قائم کروائے اور یوں سیاست کے میدان میں قدم رکھا اورآئندہ انتخابات کے لئے پارلیمانی ، صوبائی اور شہری نشستوں کے لئے امیدوار منتخب ہوئے۔
زبیر حسین کا انتخابات میں کامیابی کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ الیکشن میں جیت یا ہار کے لئے نہیں بلکہ اس لئے حصہ لے رہے ہیں کہ آنے والے دور میں پاکستانی کمیونٹی مقامی سیاست میں حصہ لے کر نا صرف کمیونٹی مسائل حل کرسکے بلکہ پاکستان اور سویڈن کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر بنانےمیں کردار ادا کرسکے۔ان کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ بے شک ہر میدان میں انسان کامیابی کے لئے ہی قدم رکھتا ہے مگر یہ میدان سویڈن کی اقلیتوں کے لئے دونوں صورتوں میں کامیابی کا ضامن بنے گا وہ یوں کے اگر ہم جیتے تو ہم نےایوانوں میں اقلیتوں کی بھرپور نمائندگی کرنی ہے اور اگر ہمیں شکست ہوتی ہے تو بھی اقلیتوں کوسویڈن میں اہمیت حاصل ہونا شروع ہوجائے گی کیونکہ اس وقت سویڈن کی تمام تر سیاسی جماعتوں کی نظر پارٹیت نیانس پر ہے اور یہاں تک کے سویڈن کا میڈیا بھی پارٹیت نیانس کےخلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے سے باز نہیں آتاوہ اس لئے کہ اقلیتوں کے اتحاد نے سویڈن کی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہےاور اگر ہمیں شکست ہوئی تو ہر سیاسی جماعت اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لئے اقلیتوں کے حقوق کے لئے میدان میں اترے گی اور یوں ہماری ہار بھی ہماری جیت ہی ثابت ہوگی۔
سویڈن کے انتخابات کے حوالے سے میرے سوال پر زبیر حسین کہتے ہیں کہ سویڈن کے انتخابات پاکستانی طرزِانتخابات سے قدرِ منفرد ہیں، سویڈن میں حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات نہیں ہوتے بلکہ یہاں ووٹ پارٹی کو کاسٹ کیا جاتا ہے، یہاں بیلٹ پیپر پر مہر نہیں لگائی جاتی بلکہ یہاں تین مختلف پیپر نوٹ کو لفافوں میں ڈال کر پرزائڈنگ آفیسر کو جمع کروائے جاتے ہیں ، پرزائڈنگ آفیسر ووٹرز کے سامنے ان لفافوں کو تین مختلف بیلٹ باکسز کے اندر ڈال کر ووٹ کاسٹ کرنے کی یقین دہانی کرواتا ہے۔جہاں تک تین پیپر نوٹس کی بات ہے تو تین مختلف کلر کے پیپر نوٹس پولنگ اسٹیشن میں دستیاب ہوتے ہیں ، یہ پیپرز نوٹس کیا ہوتے ہیں اس پر انھوں نے بتایا پیپر نوٹس کے کلر سے نشاندہی ہوتی ہے کہ کس کیٹگری کے لئے ووٹر ووٹ ڈال رہا ہے۔یہ تین منفرد رکلر کچھ یوں ہوتے ہیں کے پیلا کلر قومی اسمبلی ، بلو کلر صوبائی اسمبلی اور سفید کلر شہری نشت کے ووٹ کے لئے ہوتا ہے۔پولنگ اسٹیشن پر ان تین رنگوں کی ووٹر نوٹس ایک میز پر مختلف پارٹیوں کے نام سے آویزاں ہوتے ہیں، یعنی اگر کوئی ووٹر پارٹیت نیانس کو ووٹ کرنا چاہتا ہے تو وہ میز پر رکھے پارٹیت نیانس کو اٹھائے گا اور ووٹنگ بوتھ میں جاکر اسے مختلف لفافوں میں ڈالے گا۔اگر آپ کی مطلوبہ پارٹی کے نوٹس پولنگ اسٹیشن میں موجود نہیں تو بغیر کسی نام کی اسی طرح کی ووٹر نوٹس موجود ہوتی ہیں ان پر آپ اپنی پارٹی کا نام اپنے ہاتھ سے واضح طور پر تحریر کریں اور اگر آپ کسی امیدوار کو منتخب کرنا چاہتے ہیں تو اس کا نام بھی اس نوٹ پر لکھ سکتے ہیں۔
جہاں تک امیدوار کو ووٹ ڈالنے کا تعلق ہے تو مذکورہ نوٹس پر پارٹی کے امیدواروں کے نام موجود ہوتے ہیں، درج کردہ امیدواروں کے نام میں سے کسی بھی ایک امیدوار کے نام پر کراس لگا کر اسے ووٹ کاسٹ کیا جاسکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج کے بعد پارٹی جب کسی نشت پر کامیاب ہوتی ہے تو اپنے منتخب کردہ امیدواروں میں جسے سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ کیا گیا ہواسے آگے لاتی ہےاور بعض اوقات کسی ایسے نمائندے کو بھی پارٹی کی جانب سے آگے لایا جاسکتا ہے جو مذکورہ نشت کے لئےموضوع نمائندہ ہو۔ سویڈن کے انتخابات کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہاں الیکشن کے دن کی تاریخ تو مقرر کردی جاتی ہے جیسے اس بار انتخابات 11 ستمبر کو ہوں گے مگر یہاں ایڈوانس میں ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے یعنی انتخابات سے دو ہفتہ قبل ہی لوگ اپنا ووٹ مقرر کردہ پولنگ اسٹیشن میں جمع کرواسکتے ہیں۔ اس سال 24 اگست سے ہی ووٹر اپنا ووٹ مختلف شاپنگ سینٹر میں قائم کردہ پولنگ اسٹیشن میں جمع کرواسکتے ہیں ۔ دوسری منفرد اور اہم بات سویڈن کے انتخابات کے حوالے سے یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کسی کے پاس سویڈن کی شہریت ہو، اگر کوئی شخص سویڈن میں قانونی طور پر تین سال تک مقیم رہا ہے تو اسے شہری اور صوبائی نشست پر ووٹ ڈالنے کا حق ہوتا ہے البتہ قومی نشست پر ووٹ صرف سویڈش شہریت کے حامل افراد ہی ڈال سکتے ہیں۔ انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام شہری جن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے انہیں ایک خط بھیجا جاتا ہے جس میں یہ معلومات درج ہوتی ہے کہ وہ کن کن نشستوں پر ووٹ ڈالنے کا حق رکھتے ہیں اور ان کا پولنگ اسٹیشن کونسا ہے۔
زبیر حسین کی بات چیت سے جہاں دل خوشی سے جھوم اٹھا ، دل افسردہ بھی ہوا کہ اپنے وطن کا ٹیلنٹ جسے ملک میں مجبور اور محکوم بنا کر اس بات پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ دیار غیر میں جاکر اپنا جگہ بنائے۔ کیونکہ موروثی یا جاگیردارنہ اور سرمایہ دارنہ سیاست میں اس کی نہ کوئی جگہ ہے نہ مقام۔ یہ قوم ملک سے باہر جاکر بھی پاکستان کے درد میں جیتی ہے۔ بھی رہبروں کو قومیں نہیں ملتیں اور اس قوم کو شاید رہبر میسر نہیں۔
ہم زبیر حسین کی کامیابیوں کے لئے دعاگو ہیں۔