ہومکالم و مضامینبھکاری بادشاہ

بھکاری بادشاہ

شاہ نواز سیال

اٹلی کے دار الحکومت روم میں دنیاکے معزول باد شاہوں کا ایک غیررسمی کلب ہے ، ایک وقت تھا کہ جب اس کلب کے کرتا دھرتا افغانستان کے بادشاہ ہوا کرتے تھے لیکن آج کل یہ ذمہ دار ی ’’رضا شاہ پھلوی‘‘ کا خاندان پوری کررہا ہے ۔ آج کل اس کلب کے متحرک ارکان میں نیپال کے سابق بادشاہ ’’گیانندرا،روس اور رومانیہ کے سابق بادشاہ ’’زار‘‘کے ورثاء،ایتھوپیا کے معزول بادشاہ’’ ہیل سلاسی‘‘ اور لیبیا کے بادشاہ ’’شاہ ادریس‘‘ کے ورثاء شامل ہیں‘‘سابق جرمن ریاست کے بادشاہ ’’شاہ‘‘،ترکی کے معزول خلیفہ ’’سلطان عبد الحمید ‘‘،عراق کے سابق بادشاہ’’ فیصل ‘‘کے ورثاء بھی اس کلب کے ممبر رہے ہیں۔ ایران کے سابق بادشاہ’’ میر عثمان علی خان‘‘ کے پوتے ’’مکرم جاہ‘‘ بھی اسی کلب کے ممبر تھے لیکن آج کل آسٹریلیا میں ایک فارم ہاؤس میں بھیڑ ,بکریوں کی رکھوالی کرتے ہیں اور ایران کو حلال گوشت فراہم کرنے کے سب سے بڑے بیوپاری بھی ہیں۔
ایران کا سابق شہنشاہ ’’رضا شاہ پھلوی‘‘ جو کہ 22سال کی عمر میں ایران کابادشاہ بن گیا ابھی اس کی عمر ٖصرف 6 سال کی تھی کہ اس کو ولی عہد قرار دے دیا گیاتھا، وہ 38سال تک ایرا ن کا باد شاہ تھا۔ وہ مزاجاً سوشلسٹ اورمغرب پرست حکمران تھا،اس نے ایران میں عصر کی نماز کی ادائیگی پر باقاعدہ پابندی لگادی تھی،وہ اپنی سلطنت کو تین ہزار سال پرانی سلطنت قرار دیتا تھا،اس نے یہودیوں کو اسرائیل کے قیام میں بڑی مدد دی تھی، وہ اسرائیلیوں کے لیے روز گار کے مواقع بھی تلاش کرتاتھا۔ 1948ء میں اس نے ایران سے اسرائیلیوں کو اسرائیل میں جا کر بسنے کی قانونی اجازت دے دی تھی۔
اس مقصد کے لیے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’ موساد ‘‘کو تہران میں آفس کھولنے کی بھی اجازت دے دی ,تاکہ یہودیوں کی آبادی کو پر امن طریقے سے اسرائیل منتقل کیا جا سکے۔ اسی طرح ایران کے اس وقت کے وزیر اعظم’’ محمد اسد‘‘ نے اسرائیل کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کرنے کے لیے 50,000ڈالر کی رقم وصول کی تھی،یہ وہ وجوہات تھی جن کی وجہ سے ایران میں حکومت کا مذہبی حلقوں اور عربوں میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا ،شہنشاہ ایران ’’رضاشاہ پھلوی‘‘ کو سرطان کی جان لیوا بیماری لگ گئی تھی ، اسی بیماری کے دوران ہی اس کو ایران چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ امریکہ نے ’’شہنشاہ ایران‘‘ کو ایک مختصر عرصہ سے زیادہ دیر تک پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا-
مصر اور مراکش نے پہلے ہی پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا, میکسیکونے اگرچہ پناہ دے دی تھی لیکن اس میں پروٹوکول نہیں تھا بلکہ عام سی سیاسی پناہ تھی،کچھ عرصہ تک وہ ’’بہاماز‘‘ میں بھی مقیم رہا،شہنشاہ کے پاس دولت تو بے بہا تھی لیکن سکون نہیں تھا،اس نے لوٹی ہوئی دولت واپس کرکے ایران میں آنے کی درخواست کی تھی, لیکن اس انقلابی حکومت نے انکار کر دیا تھا ،اس دوران شہنشاہ نے مصر کے’’ صدر انور سادات‘‘ کو خط لکھا جس میں اس نے کہا کہ’’میں دنیا کا سب سے بڑا بھکاری ہوں ,خدا کے واسطے مجھے مصر میں آنے دو اور میری پہلی بیوی ’’نریمان‘‘ کے پہلو میں دفن ہونے دو‘‘اس خط کو پڑ ھ کر مصری ’’صدر انور سادات‘‘ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اس نے یہ درخواست قبول کر لی۔
مصری عوام اس کے خلاف تھے انہوں نے احتجاج شروع کر دئیے لیکن مصری صدر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی’’ رضا شاہ پھلوی ‘‘کے بڑے بیٹے سے کر دی پھر ’’سمدھی ‘‘ہونے کے ناطے ’’شہنشاہ ایران ‘‘کو مصر میں آنے کا جواز مل گیا،قاہرہ آتے ہی شہنشاہ ایران کے کینسر میں مزید شدت آگئی ، چند دن بعد اس نے مصری ’’صدر انور سادات‘‘ سے ملاقات کی درخواست کر دی جب ’’صدرانورسادات‘‘ اس سے ملنے آئے تو اس نے کہا ’’جناب صدر‘‘ آپ کے خیال میں میری آخری خواہش کیا ہو سکتی ہے؟اس پرصدر انور سادات نے جواب دیا کہ تم شہنشاہ رہے ہو ،ہو سکتا ہے تم دوبارہ باد شاہت کے خواہش مند ہوں گے, اس پر ’’رضاشاہ پھلوی ‘‘نے انکار میں سر ہلا دیا ،پھر کہا ہو سکتاہے کہ تمہیں بہت ساری دولت کی ضرورت ہو تاکہ تم اپنا آخر وقت آرام سے گزارسکو ،لیکن’’ رضاشاہ پھلوی‘‘ نے اس پر بھی انکار میں سر ہلا دیا،تیسر ی مرتبہ ’’صدر انور سادات ‘‘نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ تم صحت اور آرام کے خواہش مند ہوں گے؟لیکن اس مرتبہ بھی رضاشاہ پھلوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ میر ی آخر ی خواہش یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی نے مجھے میری زندگی میں مہلت دینی ہے تو اتنی مہلت ضرور دے کہ میں سکون سے مر سکوں،شاید یہ قبولیت کی گھڑی تھی، ٹھیک تین دن بعد شہنشاہ ایران رضا شاہ پھلوی دنیا سے رخصت ہو گئے ، اس کی موت کے بعد جب ’’صدر انورسادات ‘‘سے اس کی موت کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو اس نے کہا کہ ’’رضا شاہ پھلوی اگرچہ سرزمین فرزندمصر نہیں تھا لیکن وہ مصریوں کا داماد اور میرا’’ سمدھی‘‘ ضرورتھا اس لیے اسے سر زمین مصر میں دفن ہونے کا حق حاصل ہے‘‘۔ ممالک کے حکمرانوں کا اچھاکردار عزت دیتا ہے ،جو حکمران بد قماش اور بدکردار ہوں وہ کبھی بھی اپنے عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پاتے بلکہ دوسروں کے لئے مقام عبرت بن جاتے ہیں۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

2 تبصرے

  1. Superb blog! Do you have any suggestions for aspiring
    writers? I’m hoping to start my own blog soon but I’m a little
    lost on everything. Would you propose starting
    with a free platform like WordPress or go for a paid option?
    There are so many choices out there that I’m completely confused ..
    Any recommendations? Kudos!

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں