ہومانٹرنیشنلمغربی میڈیا کا نہیں بلکہ جب کسی چیز کو اپنی نگاہ...

مغربی میڈیا کا نہیں بلکہ جب کسی چیز کو اپنی نگاہ سے دیکھو تب ہی یقین کرو- ثوبیہ خورشید اور ماروی اعوان کا انٹرویو

ورلڈ یوتھ فیسٹول 2024 کے بارے میں !

سوچی میں ورلڈ یوتھ فیسٹول 2024 عالمی نوجوانوں، تنوع اور اتحاد کے ایک متحرک جشن میں اختتام پذیر ہوا۔ میلے کے دوران، جو کئی دنوں تک پھیلا ہوا تھا، دنیا بھر سے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے، خیالات کا تبادلہ کرنے اور بامعنی روابط استوار کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ اس تقریب میں ثقافتی پرفارمنس، فنکارانہ نمائشوں، اور انٹرایکٹو ورکشاپس کی بھرپور ٹیپسٹری پیش کی گئی، جس سے شرکاء کو مختلف ثقافتوں کے نظاروں، آوازوں اور ذائقوں میں سے لطف اندوز ہونے کا ایک انوکھا موقع فراہم ہوا۔

جبکہ اس فیسٹیول نے عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا، جس میں شرکاء بحث و مباحثے اور اقدامات میں شامل تھے جن کا مقصد ماحولیاتی استحکام، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کو فروغ دینا تھا۔ جیسے جیسے فیسٹیول اختتام کو پہنچا، وہاں ایک واضح دوستی اور رجائیت کا احساس تھا، جس کے شرکاء نے اپنی برادریوں اور اس سے باہر مثبت تبدیلی پیدا کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھنے کی ترغیب دی۔

مجموعی طور پر، سوچی 2024 میں ورلڈ یوتھ فیسٹیول نے ایک دیرپا اثر چھوڑا، جس سے دنیا بھر کے نوجوانوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ افہام و تفہیم، تعاون اور یکجہتی کو فروغ ملا۔سوچی ورلڈ یوتھ فیسٹول میں پاکستان کی طرف سے مختلف شعبہ ہائے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی. روس میں مقیم پاکستان کے معروف صحافی اور صداۓ روس کے چیف ایڈیٹر اشتیاق ہمدانی نے سوچی ورلڈ یوتھ فیسٹیول میں پاکستان کی طرف سے شرکت کرنے والے پاکستانی وفد میں شریک مندوبین کی بڑی تعداد سے انٹرویو کئے جہنیں ایک ساتھ پبلش کرنا ممکن نہیں. ہم روزمرہ کی بنیاد پر تمام انٹرویو شائع کرنے کی کوشش کریں گے.

روپٹلی – روسی سرکاری ویڈیو نیوز ایجنسی جو ویڈیو آن ڈیمانڈ میں مہارت رکھتی ہے، ٹیلی ویژن نیٹ ورک رشیا ٹودے کا ذیلی ادارہ ہے۔ صدائے روس روپٹلی کا مشکور ہے کہ جس نے اپنے سٹوڈیو میں خصوصی انٹرویو کے لئےٹیکنیکل معاونت فراہم کی-

ثوبیہ خورشید
لکھاری، ماہر جیو پولیٹکس

ماروی اعوان
ایگزیکٹو ڈائریکٹر وومن پروٹیکشن سیکٹر، جنرل ایکسپرٹ، اور ممبر فیوچر ٹیم پاکستان، کا انٹرویو

اشتیاق ہمدانی: آپ کے ہاتھ میں پھول ہیں یہ کہاں سے آپ کو ملے، نیز آپ کو یہاں کے مقامی لوگ کیسے لگے، آپ کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا گیا، یہاں کیسا ماحول ملا ؟

ثوبیہ خورشید : آپ کا بہت بہت شکریہ، میں روس کے شہر سوچی میں ہونے والے اس ورلڈ یوتھ فیسٹول میں پہلی بار شرکت کر رہی ہوں اور میں یہاں سب سے پہلے سوچی پولیس سے ملی.میں ان کی جانب سے ہمارا پرتپاک استقبال دیکھ کر حیران رہ گئی. یہاں لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز تھے. مجھے سوچی کی پولیس نے یہ پھول بھی پیش کیے، اور میں ان کی مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوئی. میڈیا پر اس وقت چونکہ مغربی تسلط ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ بیانیہ گھڑنے میں پرو پیگنڈا بنانے میں مغربی میڈیا بہت آگے ہے. روس آنے سے قبل روس کے بارے جو تصویر ذہن میں تھی وہ یہاں آ کر دیکھا تو بلکل مختلف تھی. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم زیادہ تر مغربی میڈیا سے خبر لیتے ہیں اور مغربی میڈیا ہی کو فوقیت دیتے ہیں جس وجہ سے ہمارے ذہن میں روس کے بارے مغربی میڈیا کی بنائی ہوئی تصویر بنتی ہے یا مغربی بیانیہ ہی پروان چڑھتا ہے. میں نے روس آ کر یکسر مختلف اور اس کے برعکس دنیا دیکھی ہے جو مغربی میڈیا اپنے نقطہ نظر سے دنیا کو بتاتا ہے. ایک محاورہ ہے “جب کسی چیز کو اپنی نگاہ سے دیکھو تب ہی یقین کرو” اس ہی بات کے مصداق روس میں آ کر معلوم ہوتا ہے کہ روس کتنا اچھا ملک ہے اور یہاں کے لوگ کتنے مہمان نواز اور اپنایت والے ہوتے ہیں.

اشتیاق ہمدانی: روس کے ماحول اور لوگوں سے آپ متاثر ہوئی ہیں؟

ثوبیہ خورشید: جی میں روس آ کر بہت متاثر ہوئی ہوں خاص کر ان کے رویہ سے، ان کی مہمان نوازی سے، لہٰذا میں دیکھنے والوں کو کہوں گی ہمیں روس کا دورہ ضرور کرنا چاہئے. روس کے دارالحکومت ماسکو آئیں، سوچی شہر کا دورہ کریں. آپ کو ایک مختلف نقطہ نظر ملے گا. میں کہنا چاہوں گی کہ میرا بہت ہی اچھا تجربہ رہا روس آنے کا.

اشتیاق ہمدانی: آپ کا تجربہ کیسا رہا، آپ بھی تین روز سے یہاں موجود ہیں، صدر پوتن کا خطاب بھی سنا، تو آپ کو کیسا لگا یہ روس کا یہ دورہ؟

ماروی اعوان: میں دوسری بار روس آئی ہوں، پہلی بار میں فیوچر ٹیم پاکستان کے ساتھ ایک رکن کے طور پر یوریشیا گلوبل میں شرکت کی غرض سے روس آئی تھی. اس بار میں فیوچر پاکستان کے ساتھ پاکستان کے نوجوانوں کو ساتھ لے کر آئی ہوں. اس حوالے سے میرا تجربہ انتہائی مختلف اور منفرد ہے. ہم اس فورم میں پاکستان کے نوجوانوں کو عالمی دنیا سے اور عالمی یوتھ سے متعارف کروا رہے ہیں. میرا تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ سے ہے، سندھ کے چھوٹے چھوٹے اور، دور دراز کے علاقوں سے خواتین تعلق رکھتی ہیں ہم ان کو بھی موٹیویٹ کرتے ہیں. ہمارے ساتھ آج اس فیسٹیول میں پاکستان کے مختلف علاقوں، پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں. یہ بہت بڑا موقع ہے کہ جس میں ہمارے ملک کی یوتھ پوری دنیا کی یوتھ سے آ کر کنیکٹ ہو. نہ صرف کنیکٹ ہو بلکہ اپنے خیالات کا تبادلہ بھی کرے. دنیا میں جاری عالمی اور علاقائی مسائل کا حل نکالیں.


اشتیاق ہمدانی: ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں دور دراز کی خوتین کو مواقعے نہیں دئیے جاتے، لہٰذا آپ کو اپنے کام کو انجام دینے میں دشواری پیش آتی ہے؟

ماروی اعوان: میرا تعلق ہی وومن پروٹیکشن سے ہے اس لئے سندھ پولیس کے ساتھ مل کر ہم نے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لئے ادارے بھی بنائے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکلات بہت ہوتی ہیں، کلچرل رکاوٹیں ہوتی ہیں، پابندیاں ہوتی ہیں، ہر خاندان کا اپنا طریقہ کاررسم و رواج ہیں، لیکن انھیں یہ سب بتانا بہت ضروری ہے کہ قوموں کی ترقی کی بنیاد سماجی مساوات ہے. یہ بات صرف میں ہی نہیں کہتی بلکہ بابائے قوم محمد علی جناح نے بھی کہی ہے کہ جب ہم عورتوں کو شانہ بشانہ لے کر چلیں گے تو ہی ہم ملک کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں. اس میں وقت ضرورلگے گا مگر ہم کوشش کر رہے ہیں. ہمیں ملک میں رہنے والی خواتین کو مواقعے دینے ہیں اور ان کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے، اور ہمیں امید ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے.

اشتیاق ہمدانی: میرے سامنے دو خواتین ہیں ایک کا تعلق سندھ سے ہے اور دوسری کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے. یعنی کراچی سے کشمیر تک. پاکستان کے حوالے سے یہ تصور پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں خواتین پر ظلم ہوتا ہے، ابھی آٹھ مارچ کو اسلام آباد میں خواتین کے حقوق کی تنظیمیں سرگرم ہو جائیں گی. ہمارا ملک ہمارا معاشرہ ہمارا مذہب ایسی خواتین جو اخلاقی اقدار میں رہتے ہوئے اپنے گھر کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھ کر گھر سے باہر آتی ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے. ایسی خواتین کا پاکستان کے دیہی علاقوں سے اتنے بڑے فوم میں شرکت کرنا یقینا بہت خوش آئین بات ہے. مجھے بتائیں خواتین کے حوالے سے آپ کے یہاں کیا سیشن ہوئے کیا مصروفیت رہی؟ یہاں آنے کے بعد آپ کے ذہن میں کیا خیال آیا کہ روس اور پاکستان کے درمیان کیا کرنا چاہئے؟

ماروی اعوان : پاکستان کے روس آنے والا وفد بہت زیادہ متحرک ہے، یعنی ہمیں ہمارے تمام شعبوں تعلق رکھنے والے لوگ جیسے میڈیا کے لوگ، انٹرپینور، انفلنسرز، طالب علم، اپنے روابط بڑھا رہے ہیں. جس سے پاکستانی یوتھ مضبوط ہوگی. میں نے کل یہاں بریکس کے اجلاس میں شرکت کی، یہ میرے لئے انتہائی شاندار تجربہ تھا. میں انسانی حقوق کی ایک ایکٹوسٹ ہوں، اس دوران میں نے وہاں معذور بچوں کے حوالے سے ایک اجلاس اٹینڈ کیا. اس اجلاس کا بہت ہی عمدہ نام تھا سٹریٹ ٹؤسٹار. تو ہمیں سیکھنے کو مل رہا ہے، ہماری حوصلہ افزائی ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک میں جو معذور بچے ہیں ان کو کیسے ہم سٹریٹ ٹو سٹار بنا سکتے ہیں. یہاں بہت سے نئے نئے آئیڈیاز ہیں. برکس سے ہم نے جتنی نالج اور معلومات اکٹھی کی ہے وہ ہم واپس جا کر اپنے ملک کی یوتھ سے شئیر کریں گے. میں ایک چیز دیکھ رہی ہوں جو لوگ پاکستان سے یہاں آئے ہیں بہت پرجوش اور ان میں بہت ولولہ ہے. اس لئے انھیں ہدایت بہت اچھی مل رہی ہیں جس سے ان کی لرننگ بہت اچھی ہوگی. ہمیں یہاں بہت سہولیات دی جا رہی ہیں. ہر کوئی اپنی مرضی کے ٹریک پہ جا کے بیٹھتا ہے اور بہت اچھے طریقے سے یہاں پر فیسلٹیٹ کیا جا رہا ہے جیسے کہ میرا روس کا وزٹ دوسری بار ہے تو ٹرانسلیٹر ز ہمارے ساتھ اٹیچ ہوتے ہیں یہ بہت اچھی بات ہے ہمیں ٹرانسلیشن کے حوالے سے فیسلٹیٹ کیا جاتا ہے- یہ بہت اچھی بات ہے کہ ایک فن کا ایلیمنٹس بھی انہوں نے رکھا ہے کہ اس میں آپ کی انٹروڈکشن ہو رہی ہے ، کہ کونسل میں ایک ساتھ شامل ہوں۔

کل ہم جب روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی تقریر سن رہے تھے اس میں انہوں نے جس طریقے سے موٹیویٹ کیا پوری دنیا کو کہ ہمارا اپنے ملک کے علاوہ ایک ون پلیٹ فارم ہے- میں اپ کو مثال دیتی ہوں کلائمٹ کرائسز کی ایک ایسا ایشو ہے جو کہ گلوبلی ہم لوگ سامنا کر رہے ہیں میں اپ کو مثال دیتی ہوں صنفی عدم مساوات یہ ایک ایسا ایشو ہےجس کا ہم گلوبلی سامنا کر رہے ہیں تو ان ایشوز پہ ہمیں ون ٹیبل پہ آنے کی ضرورت ہے


اشتیاق ہمدانی: روسی صدر نے اپنے خطاب میں کہا دنیا بدل رہی ہے، ہر ملک نئے دوست کا انتخاب کر رہا ہے. آپ پاک روس تعلقات کو کیسے دیکھتی ہیں؟ مزید دونوں ممالک کے درمیان کیا ایسا ہونا چاہئے تھا جو ابھی تک نہیں ہوا؟

ثوبیہ خورشید: یہ بہت دلچسپ سوال ہے جس کا میں جامع جواب دوں گی، آپ نے درست کہا دنیا میں تبدیلی تیزی سے رونما ہورہی ہے. دنیا یک قطبی قوت سے تبدیل ہو کر کثیر قطبی قوت بن رہی ہے. مختلف ریجنز کی مختلف قوتیں ہونگی جو علاقوں کو کونٹرول کریں گی. اس سے ریجنز کی قوتیں عالمی معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گی. ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک بار پھر دو قطبی قوتیں ابھر کر سامنے آئیں. اب پاکستان کیلئے سب سے موزوں کیا ہوگا، روس جو کہ اس خطے کی سب سے نمایاں قوت ہے جو کے دنیا میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر رہا ہے. پاکستان کو بہت توجہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کو دیکھنا ہوگا، اور اپنے قومی مفادات کے تحت اپنی پالیسی کو بنانا ہوگا. جہاں تک بات ہے پاک روس تعاون کی تو پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، اس لئے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی متعدد لہریں ہیں. جس میں انفرادیت کی سطح پر تعاون ہے جسے ہم لوگ یہاں کر رہے ہیں.

دوسرا ہوتا ہے انسٹیٹیوشنل تعاون، جب ہم یہاں سے واپس اپنے انسٹیٹیوشن جائیں گے تو ہم وہاں جا کر اپنا تجربہ اور وہ چیزیں جو یہاں سے سیکھی ہیں شیر کریں گے اور اس بات کا تعین کریں گے کہ یہ باہمی مفاد ہے اس پر ہم مل کر کام کر سکتے ہیں. ہم اپنے آئیڈیاز کواپنے اداروں میں پیش کریں گے. اس کے بعد ہم پاکستان کے تعلیمی اداروں کو روس کے تعلیمی اداروں سے کنیکٹ کریں گے.

اس کے بعد تیسرا لیول آ جاتا ہے ریاستی سطح کا، جہاں بہت سے لوگ حکومتی باڈیز کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ پالیسی بنانے کے سرکل میں بات کریں گے، جس سے ریاست سے ریاست سطح پر تبادلہ خیال ہوگا. میں بہت پرامید ہوں گے دونوں ممالک کے تعلقات کا مستقبل بہت روشن ہوگا. کیونکہ یہ روابط عوام سے عوام کے درمیان ہوں گے. دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ریاستی سطح پر یا انسٹیٹیوشنل سطح پر کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہو جائیں عوام سے عوام کے درمیان تعلق بنانا بہت ضروری ہوتا ہے، تب ہی لوگ ایک دوسرے پر اعتماد کر سکتے ہیں.

اشتیاق ہمدانی: روسی کھانے کیسے لگے آپ کو؟

ماروی اعوان: روسی کھانے دلچسپ ہیں، مزے کے ہیں، پھل کافی تازہ ہیں. ہم روسی کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں. روسی کھانے بہت ہیلتھی ہیں اور انھیں بہت اچھے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے. یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ ہم بریانی، دیسی کھانوں اور مصالہ دار کھانوں کے عادی ہیں.

ثوبیہ خورشید: میں اپنا تجربہ شیر کروں تو مجھے جو سب سے زیادہ چیز اچھی لگی، وہ ہے لائٹ فوڈ، آپ بھی کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم مرچیں زیادہ تیز نہیں کھاتے. میں جہاں بھی جاتی ہوں وہاں تیز مرچوں والے کھانے سے پرہیز کرتی ہوں. یہاں بہت ہی متوازن مصالے ہیں اور ایسا کھانا ہی مجھے پسند ہے.

اشتیاق ہمدانی: روسی صدر ولادیمیر پوتن دنیا میں بہت معروف ہیں اور دنیا میں ان کے چاہنے والے بہت ہیں، حتیٰ کہ مغرب میں بھی ان کے مداح ہیں، خواتین کی بات کی جائے تو وہ ان میں بھی بہت مقبول ہیں. کیا پاکستان کی خواتین روسی صدر کو پسند کرتی ہیں؟

ثوبیہ خورشید: صدر پوتن کو دنیا میں بہت پزیرائی ملی، ایک بار فرانسیسی صدر کی اہلیہ کو صدر پوتن نے ایک تقریب میں پھول پیش کئے تھے، اس ہی طرح سابقہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل، کو روسی صدر نے بھی پھولوں کا گلدستہ پیش کیا تھا. روسی صدر دنیا کے سربرہان مملکت سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں. ایک رہنما اپنی جگہ ہوتا ہے مگر وہ جتنا دوستانہ رویہ رکھتا ہو یا اس کا بہترین کردار تو وہ دنیا کو بہت متاثر کرتا ہے.

ماروی اعوان: پاکستانی خواتین کے بھی روسی صدر کے بارے بہت مثبت خیالات ہیں. یہاں آنے کے بعد میں ایک چیز کی بہت تعریف کرونگی جیسے اتنی بزرگ روسی خواتین رضاکارانہ طور پر یہاں موجود ہیں ان کو دیکھ کر بہت حوصلہ مل رہا ہے. ستر یا اسی برس کی بزرگ خواتین چہرے پر مسکراہٹ سجائے جس طرح استقبال کر رہی ہیں اس کو دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے. اس مثبت انرجی کو ہمیں اپنے ملک لے کر جانا ہے اور وہاں جا کر اس عمر کی خواتین میں یہ انرجی منتقل کرنی ہے، تاکہ جوانوں کے ساتھ ساتھ سب عمر کے افراد ایک ساتھ مثبت انرجی سے آگے بڑھیں.

اشتیاق ہمدانی:ہم ابھی روسی صدر ولادیمیر پوتن کی بات کر رہے تھے، میں نے روس کو اپنی آنکھوں سے بدلتے دیکھا ہے. ہم نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کے دس برس بھی دیکھے، اور گزشتہ24 برس سے صدر پوتن کو دیکھ رہے ہیں. آج ایک پاکستانی جب آر ٹی کے سٹوڈیو میں بیٹھ کر آپ کا انٹرویو کر رہا ہے تو یہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی وجہ سے ہی ہے. کیونکہ انہوں نے روس کو اتنا ماڈرن کیا ہے، اتنا ترقی یافتہ کیا ہے، چیزیں بدلی ہیں، ان کی وجہ سے کیونکہ انہوں نے ڈلیور کیا ہے.

چوبیس سال سے ایک کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے بہت کچھ قوم کے لئے کیا ہے. مگر ہم ایسی ترقی اپنی ملک پاکستان میں نہیں دیکھتے. بحیثیت لکھاری آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آپ یہاں سے کیا سوچ لے کر جا رہی ہیں جو آپ وہاں جا کر لکھیں، بیشک وہ بھی تیس تیس سال سے بیٹھے ہوئے ہیں، کبھی نکال دئیے جاتے ہیں کبھی واپس بلا لئے جاتے ہیں. تو وہ کس طرح اپنی قوم کی خدمات کرسکتے ہیں؟ چونکہ جو بھی آتا ہے نعرے تو لگاتا ہے مگر ڈلیور کچھ نہیں کر پاتا؟

ثوبیہ خورشید: آپ بلکل درست فرما رہے ہیں، میں آپ کی آواز میں موجود درد کو سمجھ سکتی ہوں. آپ کو یہ تکلیف ہے کہ یہاں اتنی ترقی ہے اور ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے. ہر محب وطن پاکستانی کو یہ تکلیف محسوس ہوتی ہے جب بھی وہ کسی ترقی یافتہ ملک میں جاتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ ہمارا ملک ان سے پیچھے کیوں ہے؟ جہاں تک روسی طرز نظام کو اپنانے کی بات ہے تو میں اس کی حمایت نہیں کرتی کیونکہ ہر ملک کی اپنی ڈائنامکس ہیں. ہماری جو اسٹریٹجک لوکیشن ہے، ہماری جیوگرافی ہمیں کچھ چیزوں کو رائج کرنے کی اجازت نہیں دیتی. ہم جنوبی اشیا میں بہت متضاد آراء ریجن میں ہیں، لہٰذا ہم کسی دوسرے ملک کے نظام کو یہاں رائج نہیں کر سکتے. کسی بھی سسٹم کو سمجھنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے. ہمارے ہاں جو بھی حکومت میں آئے اسے چلنے دیں اپنا کام کرنے دیں چاہئے کوئی بھی آئے. جب وہ سسٹم وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ میچور ہو جائے گا تو بہتری آئے گی. ہمارے ہاں جب کوئی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسے صرف کرسی بچانے کی فکر رہتی ہے. مجھے بہت امید ہے کہ لوگوں میں جذبہ ہے لگن ہے. جیسا ہمارے میڈیا میں بتایا جاتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اچھے نہیں ہیں ایسا نہیں ہے میں سمجھتی ہوں کہ ان میں صلاحیت ہے اور ان کو موقع دیا جائے تو وہ بھی ڈلیور کریں گے.

اشتیاق ہمدانی: آپ وومن سیکٹر میں کام کرتی ہیں، ماں اور بچے کا تعلق تو ہر ایک جانتا ہے، انسان ہو یا حیوان سب جانتے ہیں. اس فیسٹول میں پہلی مرتبہ چھوٹی عمر کے بچے بھی شامل ہیں، میں یہ پوچھنا چاہوں گا، پاکستان اور روس کے فورم پر بچوں کے حوالے سے آپ کیا امکانات دیکھتی ہیں؟ ہم کیا کر سکتے ہیں؟

ماروی اعوان: جواب: ہمارے ساتھ انڈر 18 کا وفد بھی آیا ہے. اس میں لڑکیاں بھی ہیں اور لڑکے بھی ہیں. وہ بھی بہت زیادہ پرجوش ہے. آج کے جو ٹین ایج بچے ہیں وہ ڈیجیٹل ورلڈ کے بچے ہیں.وہ پہلے والے دور کے بچے نہیں ہیں. یہ بچے یہاں موجود ہیں اور پاکستان کی بہترین انداز میں نمائندگی کر رہے ہیں. ان بچوں سے میں آپ کو ملواؤں گی. ان کو ہم روسی میڈیا سے ملوائیں گے، کیونکہ یہ بچے ہم سے بہت آگے کے دور کے ہیں پاکستان کا مستقبل ہیں. مجھے بہت خوشی ہے کہ فیوچر ٹیم پاکستان , نیشنل پاکستان پرپریٹی کمیٹی اور روس نے مل کر بچوں کی حوصلہ افزائی کی ہے. آج پاکستان کی ٹین ایج اس ورلڈ یوتھ فیسٹیول2024 میں موجود ہے. یہ بھرپور انداز میں یہاں کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لے رہے ہیں. بلکہ روس کا جو ریجنل پروگرام ہے اس میں بھی حصہ لے رہے ہیں. اس لئے ہم پرامید ہیں کہ پاک روس تعلقات آئندہ بہت زیادہ اچھے ہوں گے، اور ہم بہت زیادہ شعبوں میں مل کر ترقی کے حوالے سے حکمت عملی پر کام کریں گے. اس کے علاوہ اپنی یوتھ کو بہت زیادہ شامل کریں گے.

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

6 تبصرے

  1. Its like you read my mind! You appear to grasp a lot about this, such as you wrote the ebook in it or something. I believe that you just could do with a few percent to drive the message house a little bit, however instead of that, that is fantastic blog. A great read. I will certainly be back.

  2. I?¦m not sure the place you’re getting your information, but great topic. I must spend some time learning much more or figuring out more. Thanks for magnificent info I was looking for this info for my mission.

  3. Nice post. I learn something more challenging on different blogs everyday. It will always be stimulating to read content from other writers and practice a little something from their store. I’d prefer to use some with the content on my blog whether you don’t mind. Natually I’ll give you a link on your web blog. Thanks for sharing.

  4. Wonderful paintings! That is the type of information that should be shared across the net. Shame on Google for not positioning this publish upper! Come on over and visit my website . Thank you =)

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں