ٹرمپ کی 50 روزہ مہلت پر کریملن کا ردعمل آگیا
ماسکو(صداۓ روس)
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس کے تجارتی شراکت داروں پر ممکنہ طور پر 100 فیصد تک کے ثانوی محصولات عائد کرنے کی 50 روزہ مہلت کا روس بغور جائزہ لے رہا ہے، اور اس پر فی الوقت کوئی حتمی ردعمل دینے سے پہلے وقت درکار ہے۔ پیر کے روز ٹرمپ نے روس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امن مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو وہ سخت اقتصادی اقدامات کریں گے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ وہ صدر پوتن سے مکمل مایوس نہیں ہوئے اور اب بھی بات چیت کا دروازہ کھلا ہے۔ منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیسکوف نے کہا یہ بیانات بلاشبہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ ہمیں ضرور وقت چاہیے تاکہ واشنگٹن سے آنے والے اشاروں اور بیانات کا مکمل تجزیہ کیا جا سکے۔ اور اگر صدر ولادیمیر پوتن مناسب سمجھیں گے، تو وہ خود اس پر تبصرہ کریں گے۔ پیسکوف نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا یہ حالیہ رویہ یوکرین میں امن کا اشارہ نہیں بلکہ کیف میں اسے جنگ جاری رکھنے کی ہمت افزائی کے طور پر لیا جائے گا۔ ان کے بقول، واشنگٹن، نیٹو ممالک اور برسلز میں جو فیصلے لیے جا رہے ہیں، انہیں یوکرین کی قیادت امن کے پیغام کے طور پر نہیں بلکہ جنگ جاری رکھنے کے اشارے کے طور پر دیکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روس یوکرین کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے لیے تاحال تیار ہے اور اب بھی تیسرے دور کے لیے تاریخ کے تعین کا انتظار کر رہا ہے۔ تاہم ابھی تک یوکرینی فریق کی جانب سے کوئی باضابطہ تجویز موصول نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ 2025 کے آغاز سے اب تک روس اور یوکرین کے درمیان استنبول میں دو مرتبہ براہِ راست مذاکرات ہو چکے ہیں، جن میں اگرچہ کوئی فیصلہ کن پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن دونوں جانب سے قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا تھا۔ ٹرمپ کی جانب سے صدر پوتن کے ساتھ متعدد ٹیلیفونک رابطے بھی کیے گئے ہیں، جن میں امن کی کوششوں، باہمی تعلقات کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات زیر بحث آئے۔ بین الاقوامی مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے جارحانہ اقتصادی دھمکیوں اور سفارتی دروازے کھلے رکھنے کا دوہرا بیانیہ نہ صرف کیف بلکہ ماسکو کو بھی الجھن میں ڈال رہا ہے، اور آنے والے دنوں میں اس کا اثر مذاکراتی عمل پر واضح طور پر محسوس ہو سکتا ہے۔