ہومکالم و مضامینقاضی ناسور اور قاضی بندربانٹ

قاضی ناسور اور قاضی بندربانٹ

شاہ نواز سیال

گذشتہ 6سال سے بے یارو مدد گار عوام کربناک اذیتیوں کا شکار ہے اور یہ سلسلہ مزید لامتناہی ہوتا چلا جارہا ہے اب مسئلہ صرف ایک ستون کا نہیں, پوری عمارت کھوکھلی ہوچکی ہے ,رہین میکدہ دساور کو صلاحتیں بخش رہے ہیں ,ہر تعلیمی فصل سرراہ سڑکوں پے دھول چاٹ رہی ہے ناسوروں کی میلی آنکھ ٹکٹی باندھے سب کچھ ہڑپ کر رہی ہے جہاں روشنیاں تھیں وہیں اندھیرے ہیں, جہاں سکون تھا وہیں شوروغل ہے, جہاں تہذیب تھی, وہیں بد تہذیبی بہت ہے, جہاں معاشی خوشحالی تھی, وہیں معاشی بدحالی بہت ہے, جہاں روزگار تھا, وہیں بے روزگاری بہت ہے, جہاں معاشرتی امن تھا, وہیں معاشرتی بدامنی بہت ہے –
2017ءتک ملک میں سب کچھ تھا, ترقی تھی, خوشحالی تھی, رواداری تھی, روزگار تھا, امن تھا, سب کچھ سستاتھا, بجلی کا بل کم آتا تھا, پیٹرول سستا ملتا تھا, ہرکسی کو روزگار ملتا تھا, سرکاری ہسپتالوں میں دوا مفت ملتا تھا, یونیورسٹیز میں بچوں کو لیپ ٹاپ ملتا تھا رہ گزر کو چلتے پھرتے سواد ملتا تھا ,نہ پہلے انصاف ملتا تھا, نہ اب انصاف ملتا ہے پہلے انصاف بکتا تھا ,اور آج بھی انصاف بکتا ہے, ترقی کرتے ملک میں ناسور قاضی بن گیا, قاضی ناسور نے ترازو کے پلڑوں کو الٹ دیا باقی ماندہ انصاف بہہ گیا ,ترازو کےپلڑے جو پہلے ڈھیلے تھے اب قاضی ناسور نے الٹ دیے تھے, سازشی دھومیں مچا رہے تھے پوری قوم پہلے قاضیوں کے ہاتھوں لٹ چکی تھی, پھر قوم کی تقدیر الٹ گئی ترازو کے الٹے ہونے سے سب چیزیں بہہ گئیں, بہہ جانے والی چیزوں میں قوم کا بخت بھی ,خدمت گزار خادم کا تخت بھی تھا ,قاضی ناسور کے نرغے میں بہت عرصہ تک جہالت کا ,شرارت کا,سازش کا ,اطاعت کا, اعانت کا, آئین بدعت کا, منحوس سایہ چھا رہا قاضی ناسور نے معصوم قوم سے منہ کا نوالہ چھین لیا, قاضی ناسور اور اس کے جانشین ہر مکاری اور عیاری کا مسلسل حصہ بنتے گئے, خوشحال قوم کو دلدل کی طرف دھکیلتے گئے, نئی نسل کو تباہ و برباد کرتے گئے, قاضی ناسور کے ہم خیال لوگ پرانی دیوتی کے پیروکار شخص کو لے آئے غلے سے بھرے اناج پر بیٹھا دیا, قاضی ناسور کے جانشین اور ہم خیال دیوتی کے پیروکار شخص کی سرپرستی کرنے لگے اس کے لیے پوری قوم کو بے وقوف بنایا ,بدذائقہ چورن بیچا گیا قوم کے برگر لوگوں کا معدہ خراب کیا گیا آج قوم کے کئی افراد مریض ہوچکے ہیں ,ملک کا قرض بڑھتا گیا ,ذہنی مریض لوگوں کا مرض بڑھتا گیا, قاضی بندر بانٹ کا جب زمانہ آیا تو اس نے پورا وقت الف لیلی کی کہانیاں پڑھنے میں زیادہ گزارا ترازو کے الٹے پلڑوں میں سوائے خاک پیھکنے اور کچھ نہیں کیا اگر کچھ کیا تو یہ کیا کہ ترازو کے پلڑے ترازو سے الگ کردیے نہ پلڑے ہوں گے نہ ترازو لگے گا دیوتی کے پیپروکار شخص کو پرستان کی سیر خوب کراتے رہے آج کل دیوتی کا پیروکار شخص خلوت میں ہے, مصیبت زدہ امراض کا شکار عوام جلوت میں ہے, ایک تگڑا حکیم, حکمت سے بھرپور اپنے کشادہ ذہن سے علاج کرنے میں مصروف عمل ہے روزمرہ کے احوال سے پتہ چلتا ہے قاضی ناسور اور قاضی بندربانٹ کے ہاتھوں ڈسی ہوئی مصیبت زدہ قوم کو راحتیں ملی رہی ہیں اور عادی مریضوں کی تشخیص ہوچکی ہے کسی کی آپریشن کے ذریعے چیخیں نکل رہی ہیں اور کسی کسی کو سخت انجکشن لگ رہے ہیں –

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

105 تبصرے

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں