ہومانٹرنیشنلبھارت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعیات، امریکہ کا اظہار تشویش

بھارت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعیات، امریکہ کا اظہار تشویش

بھارت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے واقعیات، امریکہ کا اظہار تشویش

واشنگٹن انٹرنیشنل ڈیسک
امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت میں نیوز ویب سائٹ سے منسلک افراد کی گرفتاری اور ان کے گھروں میں چھاپوں سے متعلق رپورٹس سے آگاہ ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ان دعوؤں کے مصدقہ ہونے پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘ امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ ’امریکی حکومت ایک آزاد جمہوریت میں متحرک میڈیا بشمول سوشل میڈیا کے کردار کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ تمام معاملات جو دو طرفہ تعلقات میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان پر بھارتی حکومت اور دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

’ہم نے نہ صرف بھارت بلکہ دیگر ممالک پر بھی آزادی اظہار رائے اور صحافیوں کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔‘ خیال رہے کہ منگل کو بھارت کی انسداد دہشتگردی پولیس نے مبینہ طور پر چینی فنڈنگ سے متعلق ایک کیس میں ایک نیوز ویب سائٹ سے منسلک دو صحافیوں کو گرفتار کیا تھا جبکہ 44 افراد کے گھروں پر چھاپے مارے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ان چھاپوں نے ایک ایسے ملک میں میڈیا کی صورتحال پر بین الاقوامی تشویش کو جنم دیا ہے جہاں پریس کی آزادی پر قدغن لگائی گئی ہے۔
جن افراد کے گھروں میں چھاپے مارے گئے ہیں ان کا تعلق انگریزی زبان کی نیوز ویب سائٹ ’نیوز کلک‘ سے بتایا گیا ہے جس کے خلاف انڈین حکام نے 2021 میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
اس نیوز ویب سائٹ کے خلاف دائر مقدمے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ غیرملکی ذرائع سے فنڈنگ لے رہی ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اگست میں رپورٹ کیا تھا کہ امریکی ارب پتی نیویل رائے سنگھم نے ’نیوز کلک‘ کی مالی اعانت کی تھی جن پر الزام ہے کہ وہ چینی حکومت کے ایجنڈے کے تحت کام کرتے ہیں، تاہم وہ اس دعوے کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’37 مردوں اور نو خواتین سے پوچھ گچھ کی گئی ہے جن میں سے دو کو حراست میں لیا گیا ہے جبکہ ڈیجیٹل آلات اور دستاویزات کو ضبط کیا گیا ہے۔‘ تاہم، پولیس نے بتایا کہ چھاپے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت مارے گئے ہیں جو انسداد دہشت گردی کا سخت قانون ہے جس کی وجہ سے ضمانت حاصل کرنا عملی طور پر ناممکن ہے۔ پولیس نے کہا کہ کارروائی اب بھی جاری ہے۔ ’اب تک دو ملزمان پربیر پورکیاستھ اور امیت چکرورتی کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ پورکایستھا نیوز کلک کے ایڈیٹر ہیں جبکہ چکرورتی ہیومن ریسورسز (ایچ آر) کے سربراہ ہیں۔
’نیوز کلک‘ کے صحافی اریتری داس نے سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ ’پولیس صبح کے وقت میرے گھر میں گھس گئی، رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور میرا لیپ ٹاپ، فون اور کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک قبضے میں لے لی۔‘
نیوز کلک سے وابستہ مورخ اور کارکن سہیل ہاشمی کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’(پولیس) نے مجھے جو وارنٹ ہچکچاتے ہوئے دکھایا اس کے مطابق میری رہائش گاہ پر چھاپہ نیوز کلک کی تحقیقات سے متعلق تھا۔‘

سہیل ہاشمی کو اپنا لیپ ٹاپ، فون اور ہارڈ ڈسک پولیس کے حوالے کرنا پڑی جس میں ان کی ایک دہائی سے زیادہ کی تحریریں محفوظ ہیں۔ انہوں نے اس چھاپے کو ’آزادیِٔ صحافت کے خلاف کریک ڈاؤن‘ قرار دیا۔ ممبئی پریس کلب نے ایک بیان میں ان چھاپوں پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پولیس سے ’صحافیوں کے خلاف ہراساں کرنے کی مہم ‘ کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں