ہومUncategorizedروٹی کا ٹکڑا خواب کی مانند. ڈانباس کے پناہ گزینوں کی کہانی

روٹی کا ٹکڑا خواب کی مانند. ڈانباس کے پناہ گزینوں کی کہانی

اشتیاق ہمدانی

سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس کو بہت سے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی کے نئے دور کا از سر نو آغاز کرنا تھا۔ پھر نئی جدت بھری زندگی کا آغاز ہوا، جس کے بعد بہت سے روسی لوگ دنیا دیکھنا چاہتے تھے، بیرون ملک سفر کرنا ، کوٹھیاں بنانا ، لگژری کاریں اور اپارٹمنٹس خریدنا، اور بڑا کاروبار کرنا چاہتے تھے۔ 1990 کی دہائی میں روس کو قفقاز میں دہشت گردی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جہاں بیرونی اثر و رسوخ نے بڑا کردار ادا کیا۔ اپنے عوام کو دہشت گردی سے بچاتے ہوئے، روسی ریاست صبر اور امید کے ساتھ بہتری کی طرف بڑھی۔ اس وقت روس نے بین الاقوامی معاملات میں مداخلت نہیں کی اور اس دوران دوسرے ممالک جو روس سے بہت دور ہیں ان کو بین الاقوامی معاملات میں مداخلت کرنے، ان کو توڑنے اور تباہ کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔ آخرکار وہ اتنے مضبوط ہو گئے کہ انہوں نے کھلے عام کہہ دیا کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارے خلاف ہے۔ اس کے جواب میں روس میں سوویت جذبہ جاگنے لگا، روس کسی کا بھی غلام نہیں بننا چاہتا تھا۔ روس کی اپنی آزادی، اپنے رسم و رواج اور ثقافت ہے.

روس یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ سال بہ سال مختلف غیر ملکی ہاتھ اسے کیوں پریشان کرتے ہیں۔ مسئلہ قفقاز کا ہے، عرب دنیا میں اسلامی ممالک کے درمیان جنگوں کا ہے۔ مثال کے طور پر عراق یا کویت میں۔ پھر 11 ستمبر کے سانحے کے بعد امریکی افغانستان آتے ہیں، جہاں وہ 20 سال سے بیٹھ کر دوسرے لوگوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ اس وقت کریملن کے سرکاری دفاتر میں سی آئی اے کے ایجنٹس تھے۔ یقیناً انہوں نے پھر انہیں گھر کا راستہ دکھایا۔ پھر جارجیا کے ساتھ مسئلہ شروع ہوا جہاں مغرب نے روس کو الجھانے کی کوشش کی. یہاں یہ بات قبل ذکر ہے کہ نیٹو فوجی اتحاد کے مشرقی یورپ کی جانب توسیع نہ کرنے کے وعدوں کے باوجود نیٹو کی مشرقی یورپ میں روس کی سرحدوں کی طرف پیش قدمی کا سلسلہ جاری رہا.

امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے اپنے میزائل روسی سرحدوں کے قریب تعینات کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ ماسکو نے جوابی کارروائی میں اپنے میزائلوں کو کیلینن گراڈ میں تعینات کردیا جو کہ روس کا واسطی یورپ میں موجود ایک ریجن ہے۔ اس عمل سے کچھ وقت کے لیے روس نے اپنے دشمن کو خاموش کروادیا، لیکن پھر 2014 میں امریکا اور نیٹو دونوں نے یوکرین کے بارے میں فیصلہ کیا، قانونی طور پر منتخب صدر کو معزول کیا اور روس کے خلاف رائٹ سیکٹر (روس میں کالعدم) جیسی بنیاد پرست بٹالین قائم کیں.

یہ اچھی بات ہے کہ روس نے بروقت اور پرامن طریقے سے کریمیا کے لوگوں کی حفاظت کی، لیکن وہ اس وقت دونباس کے باشندوں کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکا، جس کے نتیجے میں دونباس کے رہنے والے لوگ مغرب کی جانب سے لائی گئی مغرب نواز کٹھ پتلی یوکرین حکومت کے ہاتھوں قیدی بن گئے۔ روس یوکرین کو توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ لوگ اپنی زمین پر سکون سے رہ سکیں اور ان کے خلاف متعصب رویہ نہ اپنایا جائے۔ جبکہ ایسا نہ ہوا اور بلکہ قانونی بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری جس کا یورپ ڈھنڈورا پیٹا ہے دونباس میں سنگین خلاف ورزیاں ہونے لگیں۔ یہ سچ ہے کہ دونباس میں انسانی حقوق کے تحفظ کا مطلب اکثر مغربی ممالک کے مفادات کا تحفظ ہوتا تھا۔

یوکرین میں 24 فروری سے شروع ہونے والے روس کے خصوصی آپریشن کے بارے میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا سیلاب آمڈ آیا ہے، فیک نیوز کے حوالے سے دیکھیں کہ کتنے ہائی لیول پر بھی غیر زمہ داری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے مثال کے طور پرایک ٹویٹ سامنے ائی جس میں کہا گیا کہ مونٹی نیگرو نے روس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے۔ اس طرح کی ٹویٹ مونٹی نیگرو کی وزارت خارجہ کے اکاؤنٹ سے وزیر جورڈجے راڈولووچ کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔
لیکن چند گھنٹوں بعد پیغام کو حذف کر دیا گیا اور پھر مونٹی نیگرو کی وزارت خارجہ نے اپنی پوسٹ کے لیے معذرت کر لی، جو کہ ان کے بقول غلطی سے شائع ہوئی تھی: وزارت خارجہ نے وزیر کے الفاظ کی غلط تشریح کی۔

مونٹی نیگرو حکومت نواز اخبار پوبجیدا نے بھی عجلت میں اپنی سرخی کچھ اس طرح دی کہ “مونٹی نیگرو نے روس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے” اس سرخی کو بعد میں پھر بدلنا پڑا کہ وزارت خارجہ نے غلطی سے روس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ فیک نیوز کا بازار گرم ہے اور مختلف ممالک کے باشندوں میں خوف اور شکوک کا بیج بویا جا رہا ہے۔ روس کو ایک جارحانہ ملک اور صدر پوتن کو ڈکٹیٹرثابت کرنے کی کوشش جاری ہے. روس پر عالمی اقتصادی پابندیاں بھی ان ہی کا نتیجہ ہے. لیکن حیرت انگیز طور پر روسی معاشیات کمزور ہونے کے بجائے مظبوط ہوئی ہے. ایک صحافی ہونے کے ناطے ہمارے نمایندے اشتیاق ہمدانی سچ کی تلاش میں یوکرین کی سرحد پر گئے۔ جہاں انھوں نے دونباس کے شہریوں سے حالات زندگی کے حوالے سے اصل حقائق جاننے کی کوشش کی۔

اشتیاق ہمدانی کہ زبانی جانتے ہیں کہ انہیں ماریوپول کے پناہ گزینوں نے کیا بتایا؟

دونباس کے شہری یوکرینی عسکریت پسندیوں کے مظالم کا زکر کرتے ہوئے آپنے آنسو نہ روکے پائے، انھوں نے بتایا کہ انہیں کن حالات و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ روس میں تحفظ کیوں ڈھونڈ رہے ہیں، اور وہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو کیا پیغام پہنچانا چاہیں گے۔

سچ کی تلاش میں ہر روز پاکستانی میڈیا سمیت دنیا بھر کا میڈیا یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کے حوالے سے بڑی تعداد میں روس کے خلاف خبریں اور جھوٹے دعوے سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے صحافی دوستوں سے بات کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ آپ کو یہ پروپیگنڈہ کہاں سے ملتا ہے، جو حقیقت کے قریب بھی نہیں ہے۔ میں جو کئی سالوں سے ماسکو میں مقیم ہوں قابل اعتماد معلومات فراہم کرنے کے لیے مختلف ملکی اور غیر ملکی نشریاتی اداروں میں انٹرویو دینے اور اخبارات کو خبریں اور مضامین لکھنے کی کوشش کی۔ اور پھر میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور مجھے سے پوچھنے والوں کو دکھانے اور بتانے کے لیے خود Donbass جانے کا فیصلہ کیا۔

دونباس جو اس کشیدگی اور آپریشن سے قبل 8 سال سے حالت جنگ میں تھا وہاں جانا کسی رسک سے کم نہیں تھا ۔لیکن دنیا کو سچائی بتانے کے لئے ایک صحافی کو اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔
دونباس تک پہنچنا ممکن نہیں تھا: امیگریشن حکام نے مجھے بغیر کسی محافظ کے مجھے دونباس نہیں جانے دیا – کیونکہ یہ سیکورٹی رسک تھا۔ لیکن میں روس کے Rostov-on-Don شہر جو کہ یوکرین سے متصل جانے سرحد پر واقع ہے کا دورہ کرنے میں کامیاب ہوگیا، جہاں جنگی زون کے تقریباً تمام پناہ گزین آتے ہیں۔

چونکہ روستوف ہوائی اڈہ عارضی طور پر پروازوں کے لئے حفاظتی بناہ پر بند ہے، میں نے ماسکو سے تقریباً 1200 کلومیٹر کا سفر بذریعہ ٹرین رستوو نادنو کیا، اور پھر میں ریل گاڑی Taganrog سے ہوتے ہوئے اپنی آخری منزل پر پہنچا۔ روستوو کے علاقے میں پناہ گزینوں کی آمد کے سلسلے میں ہنگامی حالت نافذ تھی۔ اس خطے میں پناہ گزینوں کے لیے 100 سے زائد عارضی رہائش کے مراکز قائم کیے گئے ہیں، جن سے تقریباً چھ ہزار افراد پہلے ہی یہاں قیام کرچکے ہیں۔ یہ ایک قسم کے ٹرانزٹ زون ہیں: یہاں سے لوگ روس کے دوسرے علاقوں میں اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے پاس جاتے ہیں۔ یا اپنی مرضی میں دوسرے علاقوں میں شفٹ ہو جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو ابتدائی طبی امداد اور ضروری چیزیں، کپڑے اور خوراک دی جاتی ہے۔

میں نے دو کیمپوں کا دورہ کیا جہاں پناہ گزین آتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑے اسپورٹس کمپلیکس میں واقع ہے، دوسرا پارک ہوٹل میں ہے جہاں دیر تک ٹھہرنے والوں کو رکھا جاتا ہے۔ بہت سے مہاجرین نے کیمرے کے سامنے بات کرنے سے انکار کر دیا، اور یہ بات قابل فہم ہے: خوفناک اور پرتشدد واقعات کو بار بار یاد کرنا مشکل ہے۔ لیکن میں پھر بھی چند لوگوں سے بات کرنے میں کامیاب رہا۔ ماریوپول کے رہائشیوں کے ساتھ، جو تقریباً یوکرینی عسکریت پسندوں سے مکمل طور پر پاک ہو چکا تھا۔ اپنا وطن اور گھر چھوڑنے کی وجہ سے ان لوگوں کی آنکھوں میں درد اور آنسو ہیں۔ لیکن ایک پائیدارامن اور آزادی کی امید بھی نظر اتی ہے۔

زیلنسکی کو بدعائیں:

پہلا سوال جو میں نے تقریباً سب سے پوچھا وہ یہ تھا کہ انہوں نے روس جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اور تقریباً سبھی نے جواب دیا کہ یہ ملک ان کے قریب ہے – نہ صرف علاقائی طور پر بلکہ روح میں بھی سمایا ہوا ہے۔

ماریوپول کی ایک عورت نے ایک واقعے کا زکر کیا کہ ایک روسی شخص شہر کے لوگوں میں روٹی بانٹنے آیا۔ وہ ایک چوک پر گاڑی کھڑی کرکے نکلا اور زور زور سے سب کو روٹی لے جانے کی دعوت دینے لگا لیکن وہ کسی کو کھانا نوالہ بھی نہ کھلا سکا۔

اس عورت نے مزید کہا کہ میں ایک عینی شاہد ہوں، میں وہاں پرائموری اسٹور کے قریب تھی۔ ہم تہہ خانے میں چھپے ہوئے تھے۔ اور روٹی کا ٹکڑے ہمارے لئے ایک خواب سے کم نہ تھا۔ کسی نے بتایا کہ کوئی روٹی لیکر آیا ہے ۔ ہم لوگ باہر نکلے کچھ دور سے ہم نے دیکھا کہ کس طرح “Azovites” (روسی فیڈریشن میں کالعدم تنظیم.) نے گاڑی کے پاس آکر اس کے شخص کے کاغذات چیک کیے اور فوراً کار پر فائرنگ کرنا شروع کر دی۔ یہ زندہ شخص ہماری آنکھوں کے سامنے ایک سیکنڈ میں لاش بن گیا، ”خاتون نے وحشتناک منظر کو درد بھرے لہجے میں یاد کیا۔
سرگئی الیگزینڈرووچ نامی ایک معمر شخص کا تعلق بھی ماریوپول سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر پر طویل عرصے سے ایزوف (روس میں کالعدم تنظیم) کے عسکریت پسندوں کا کنٹرول تھا، جو شہریوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔ زندگی کا ایک طویل عرصے رہائشیوں نے پناہ گاہوں اور تہہ خانوں میں گزارا، اور اور پھر رشین فورسز کے آنے کے بعد روسی ایمرجنسی منسٹری کے لائف سپورٹ پوائنٹس پر ابتدائی طبی امداد حاصل کی۔

ماریوپول کی ایک اورخاتون نے مسکراہٹ کے ساتھ بتایا کہ وہ رات ہی یہاں پہنچی ہیں، اور آج ڈیڑھ ماہ میں پہلی بار پانی ملا غسل کرنے کے لئے اور اب آخر کار ایک آزاد شخص کی طرح محسوس کر رہی ہے۔ خاتون نے کہا کہ امریکی کسی بھی طرح سے یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ وہ تمام دنیا اپنی ڈکٹیٹرشپ لاگو نہیں کر سکتے اور یہ کہ جنگیں چاروں طرف سے روک دی جائیں۔ دونباس لوہانسک کے لوگ کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے.

ایک عمر رسیدہ خاتون ویلنٹینا اور اس کا خاندان بھی دو ہفتے تہہ خانے میں گذارنے کے بعد روس پہنچی تھیں۔ اب وہ اوران کے شوہر کیمپ میں ہیں، راستے میں آتے ہوئے عسکریت پسندوں نے ان پر فائر کھول دیا ، خوش قسمتی سے جان تو بچ گئی لیکن بیٹا اور بہو ذخمی ہوگئے خون کافی بہہ گیا،اب وہ روستوف ہسپتال میں زیر علاج ہیں . جنگ کے خاتمے کے بعد وہ گھر واپس جانے کے لئے پرامید ہیں.

ماریوپول کی رہائشی نادیزدہ وکٹورونا 30 مارچ کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ان کے مطابق یوکرین کے ٹینکوں نے کئی دنوں تک ان کے علاقے پر گولہ باری کی۔ جس سے وقت ان کے گھر میں آگ لگ گئی۔ لوگ گولہ باری سے بچنے کی پناہ گاہ میں مقیم تھے، لیکن جب گھر آگ کی لپیٹ میں آگئے، تو انہیں احساس ہوا کہ انہیں یہاں سے ہجرت کرنی چاہئے-

یوکرینی ازوف کے لوگوں نے ہمارے شہر میں گھرجلا دیئے اور کوئی شہری باہر نہ جاسکے وہ شہر کے خارجی راستوں کو بند کرنے لگے۔ رہائشیوں کو معلوم تھا کہ ازوف جنگجؤ منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔ اور ایسے ہی جرائم میں ملوث عادی مجرموں سے خیر کی توقع نہیں تھی. نادیزدہ وکٹورونا نے سوال کیا کہ یوکرین نے اپنے شہریوں کے ساتھ ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا روس کا فوجی آپریشن ضروری تھا ؟
تو خاتون نے جواب دیا:

پتہ نہیں یہ سیاست ہے کے کیا، وہ سب سے بہتر جانتے ہیں،۔ لیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ یوکرین روس کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے جب ایٹم بم چلانے کی بات کی تو ارکین نے 20 منٹ تک تالیاں بجائیں۔ زیلنسکی نے میونخ میں بات کی تو پورا یورپ خاموش رہا۔ اس سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

نادیزدہ وکٹورونا کے مطابق اگر انہیں یوکرین کے صدر کو کوئی میسج دینے کا موقع ملا تو وہ ان کے لیے “صرف ایک لعنت” بھجیں گی۔ یہ اس بدمعاش کی غلطی ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ وہ کٹھ پتلی ہے، اجڑی ہوئی اس خاتون نے انتہائی غصے سے یوکرینی صدر کے بارے میں کہا کہ وہ ہی اس سب صورت حال کا اکیلا مجرم ہے.

نادیزدہ وکٹورونا کے مطابق اس سے پہلے ماریوپول ایک بہت خوبصورت سمندر کنارے شہر تھا، لیکن اب یہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، بہت سے لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، صرف کمزور بوڑھے لوگ کہیں جا نہیں سکتے۔

عالمی جارحیت پرروس کی فتح کی توقع
پچھلے آٹھ سالوں کے ظلم و ستم کو یاد کرتے ہوئے میرے سوال کے جواب میں نادیزدہ وکٹورونا کا کہنا تھا کہ ہمیں روسی زبان بولنے پر پابندی کا احمقانہ فیصلہ کیا گیا۔ ماریوپول ایک کثیر القومی شہر ہے۔ روسی، یوکرینی، یونانی، اور بہت سے مختلف لوگ وہاں رہتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ انہوں نے روسی زبان پرپابندی کا ظلم کیوں کیا؟

سرگئی الیگزینڈرووچ نے ایک سوال پوچھا۔ اس شخص کے مطابق، وہ واقعی چاہتا ہے کہ سمجھدار لوگ اس ظلم کو روکیں۔
پچھلے آٹھ سالوں میں ہراساں کیے جانے کو یاد کرتے ہوئے، میرے مکالمے نے روسی زبان پر ظلم و ستم کے بارے میں بات کی، جب نئی حکومت نے اچانک اسکولوں میں اس کے لیے ہفتے میں صرف دو گھنٹے مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماریوپول ایک کثیر القومی شہر ہے۔ روسی، یوکرینی، یونانی، اور بہت سے مختلف لوگ وہاں رہتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ روسی زبان بولنے والا کوئی بھی فرد آج وہاں کیوں مظلوم ہونے لگا؟

پناہ گزینوں کے اسی کیمپ میں مقیم سرگئی الیگزینڈرووچ نے کا کہنا تھا کہ عقلمند لوگ اس یوکرینی صدر کے اس مجرمانہ بچپنے کو روکیں۔ انھون نے خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ لوگ امن، خوشحالی، کے ساتھ رہیں۔ آرتھوڈوکس، مسلمان مل کر اج فاشزم کی برائی سے لڑ رہے ہیں، سرگئی الیگزینڈرووچ نے کہا کہ میں رمضان قادروف (چیچن ریپبلک کے سربراہ) کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کوہمارے آبائی وطن ماریوپول کے دفاع کے لیے بھیجا۔ یہ بہت اہم ہے کہ مسلمان اور آرتھوڈوکس دونوں ہی یہاں کے لوگ ہیں۔، اس عالمی برائی نازی ازم کے خلاف مل کر لڑنے کے لیے مختلف مذاہب متحد ہیں۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن نےدونیسک اور لوہانسک کو تسلیم کیا، اس لیے امید ہے، کہ روس ہمیں اکیلا نہیں چھوڑے گا۔ ویسے میں نے ماریوپول میں چیچنز سے بات کی، ہماری بہت خوشگوار گفتگو ہوئی۔ اور کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو اپنے آبائی وطن ماریوپول کے دفاع کے لیے بھیجا۔ انھوں نے اپنے آنسو روکے بغیر کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ مسلمان اور آرتھوڈوکس دونوں – مختلف عقائد کے لوگ – نازی ازم کے خلاف اس عالمی برائی کے خلاف مشترکہ لڑائی کے لیے متحد ہیں.

تاہم کیمپ میں صرف ماریوپول کے رہائشی نہیں ہیں۔ لوہانسک عوامی جمہوریہ کے شہر استاخانوف سے آریوگا نامی لڑکی نے بتایا کہ اس کا پورا خاندان 20 فروری کو روس روانہ ہوا۔ اب سب ایک الگ کمرے میں رہتے ہیں، پانچ لوگ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ ہم سب اب یہاں محفوظ ہیں.

آریوگا کے مطابق خصوصی آپریشن ضروری تھا، جیسا کہ LDNR کی آزادی کو تسلیم کرنا تھا۔ اس نے کہا کہ جب روس نے اس کا اعلان کیا تو ریپبلک کے تمام باشندے خوش تھے، کیونکہ بصورت دیگر آرام دہ اور محفوظ زندگی کبھی دونباس میں واپس نہ آتی۔ لیکن آریوگا چاہتی ہیں کہ ہم جمہوریہ کریمیا کے نقش قدم پر چلیں اور خصوصی آپریشن کے بعد روس میں شامل ہوں۔

مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے پر لڑکی نے اعتراف کیا کہ وہ گھر لوٹنا اور اپنے شہر میں، اپنے گھر میں رہنا چاہے گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 9 مئی تک سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے سوال پوچھا: اس اہم تاریخ سے پہلے کیوں نہیں؟ کیا پناہ گزینوں کے پاس کوئی خفیہ معلومات ہے؟

’’نہیں،‘‘ اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ “یہ بہت اچھا ہو گا اگر سب کچھ جلدی ختم ہو جائے، اور اس تنازعہ کو برسوں تک نہ گھسیٹا جائے۔ میں دوسری جنگ عظیم کی فتح کا جشن منانا چاہتی ہوں. اس لئے دعا ہے کہ 9 مئی تک روس کنٹرول کرکے امن قائم کر دے.
ان کیمپوں میں بہت سے بچوں ، مرد و خواتین کے علاوہ بلیاں بھی ہیں جن کو مالکان اپنی گھروں سے جنگ زدہ علاقوں سے نکال کرساتھ لائے ہیں. ۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل