ہومپاکستانروس اور پاکستان کے مشترکہ چیلنجوں کےحل پر غور و فکر

روس اور پاکستان کے مشترکہ چیلنجوں کےحل پر غور و فکر

ماسکو (اشتیاق ہمدانی)

ماسکو میں “گورچاکوف فنڈ نےایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا ، جس کا مقصد روس اور پاکستان کے مشترکہ چیلنجوں کے حل پر غور و فکر کرنا تھا۔ اس کانفرنس میں دونوں ممالک کے سیاستدانوں سمیت تھنک ٹینک سے وابستہ ماہرین نے شرکت کی۔ گورچاکوف فنڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیونیڈ ڈریچوسکی نے افتتاحی تقریب سے خطاب کیا، جس میں انہوں نے اس جغرافیائی ٹریک پر اس تنظیم کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فنڈ جنوبی ایشیا میں استحکام کو مضبوط بنانے پر بات چیت کے لیے ایک پلیٹ فارم بننا چاہتا ہے اور اس حوالے سے اس فنڈ “گورچاکوف فنڈ” نے متعدد کانفرنسیں منعقد کیں ہیں۔

شرکا سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تجزیاتی ملاقاتیں موسم گرما میں ہم نے پہلی بار ان ممالک کے نوجوان و ماہرین کے لیے ایک تحقیقی اور تعلیمی پروگرام منعقد کیا جسے ایشین ڈائیلاگ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقائی سلامتی کے مسائل، بشمول کشیدگی کے موجودہ مرکز افغانستان پر توجہ مرکوز کرتا ہے.

پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے اسلحے کے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کامران اختر نے شرکا سے خطاب میں روسی فیڈریشن کے دورے کے اہداف کو بیان کیا، اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہہم کثیرالجہتی فورمز پر ہتھیاروں کے کنٹرول، عدم پھیلاؤ اور تخفیف اسلحہ کے معاملات پر ایک دوسرے کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین علاقائی روابط اور اقتصادی پیش رفت کے بارے میں بھی اپنے وژن کا اشتراک کرتے ہیں۔ پاکستانی عہدیدار کا کہنا تھا کہ عملی نقطہ نظر سے دونوں فریقین توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے خواہشمند ہیں۔

روسی وزیر خارجہ کے مشیر ولادیمیر لیونتیو نے امید ظاہر کی کہ اس بات چیت سے دو طرفہ تعلقات کو ایک نئی جہت ملے گی، اس طرح کی ملاقاتیں ہمیں ایک دوسرے کے موقف کو بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ملاقاتیں نئی سوچ کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں۔ ماضی کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روش کبھی غلط نہیں ہوگی۔

آرمز کنٹرول اور تخفیف اسلحہ کے امور کی برانچ، اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل ظاہر کاظمی نے تعلیم اور علمی تبادلوں کے شعبوں میں تعاون کو نقل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ سائنسی حلقوں اور ماہرین کے مراکز کی سطح پر رابطے ہمارے تعلقات کو مستحکم اور پائیدار بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینکس ملکی قیادت سمیت ماہرین کی مستقبل کی نسلیں تیار کرتی ہیں، جو دونوں ممالک کے مابین طویل مدتی دوطرفہ تعلقات پر مثبت اثر ڈال سکتی ہیں۔ اس سے ہماری ریاستیں امن اور پائیدار ترقی کے لیے تعاون کر سکیں گی۔

ولادیمیر لیونتیو نے بحث کے ورکنگ حصے میں اس بات پر زور دیا کہ عالمی سٹریٹجک استحکام افسوسناک حالت میں ہے، چونکہ تمام عالمی مراکز کثیر قطبی ترتیب کی تخلیق سے متفق نہیں ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی توسیع شدہ نیوکلیئر ڈیٹرنس کی حکمت عملی کا استعمال کرتے ہوئے ایشیا پیسفک خطے میں چین، روس اور شمالی کوریا کے دفاع کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

پی ایچ ڈی، مرکز برائے ہند-بحرالکاہل علاقہ کے گروپ کے سربراہ برائے جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے علاقے، اور انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ اکانومی اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز آف رشین اکیڈمی آف سائنسز الیکسی کپریانوف کے مطابق جنوبی ایشیائی خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال کرہ ارض کی اوسط سے بہتر ہے، کیونکہ اس خطے میں جوہری ہتھیار کنٹرول میں ہیں، باوجود اس کے کہ اس خطے کے ممالک کے درمیان تنازعات موجود ہیں، جیسے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان علاقائی تنازعات ہیں تاہم پھر ببھی یہاں صورت حال جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول کے حوالے سے انتہائی اطمینان بخش ہے. انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ روس کے لیے بحر ہند اور بحرالکاہل کے لیے اپنی تصوراتی پالیسی کی وضاحت کرنا معقول ہے۔ یہ ملک اب ایشیا پیسیفک خطے کے فریم ورک کو استعمال کرتا ہے جسے کبھی جاپانی اور امریکی سیاست دانوں نے ایجاد کیا تھا، لیکن بعد میں اسے باہمی طور پر قابل قبول اصطلاح میں تبدیل کر دیا گیا۔

انڈو پیسیفک ریجن کے لیے مرکز IMEMO RAS کے نائب سربراہ گلب مکرویچ کا خیال ہے کہ چین کے ساتھ بھارت کی مصروفیت پاکستان کے لیے مواقع اور خطرات لاتی ہے۔ چونکہ چین کے ساتھ ہندوستان کا زمینی تصادم بنیادی طور پر نظریاتی اور پروپیگنڈہ ہے، اس لیے نئی دہلی کو بحری حصے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ ایک ہی فیلڈ پر ان کو بھاری رقم لگانا ہوگی.

ہائر سکول آف اکنامکس کے جامع یورپی اور بین الاقوامی مطالعات کے مرکز کے ڈائریکٹر واسیلی کاشین نے کہا کہ چین روس اور امریکہ کے برابر تیسری ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ 2027 تک بیجنگ ایک اسٹریٹجک ڈیٹرنس سسٹم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے توقع کی جاتی ہے کہ غیر علاقائی طاقتوں کی چین کی سرحدوں کے قریب تنازعات میں مداخلت کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دے گا۔

سینئر ریسرچ فیلو IMEMO RAS پیٹر ٹوپیچکانوف نے اس حقیقت پر زور دیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لائے بغیر یوریشیا میں مشترکہ سلامتی کی جگہ بنانا ناممکن ہے۔ اس کی بدولت روس کی شراکت سے متعدد بین الاقوامی تجارت اور ٹرانسپورٹ کے منصوبوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ روس جوہری ہتھیاروں کو دفاع کا ذریعہ سمجھتا ہے نہ کہ جنگ کرنے کا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ملک قوموں کے درمیان اس قسم کے ہتھیاروں کے کردار کو کم کرنے کے حق میں ہے۔

کامران اختر کے مطابق روس پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھتے ہوئے خطے میں سرگرم عمل ہے۔ کامران اختر نے مزید کہا کہ اسلام آباد دنیا کے خطوں کے باہمی انحصار اور اقتصادی تعاون کی رفتار بڑھانے کی ضرورت کے بارے میں روس میں مقبول نظریہ کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز کی ڈائریکٹر برائے تحقیق ڈاکٹر عطیہ علی کاظمی کے مطابق حالیہ برسوں میں خطے کے ممالک کی فوجی صلاحیتوں کے درمیان عدم توازن بڑھ رہا ہے۔ نئی قسم کے ہتھیاروں کی ترقی استحکام کے میٹرکس کو تبدیل کرتی ہے، اور کوانٹم اور سائبر ٹیکنالوجیز نئے خطرات پیدا کرنا ممکن بناتی ہیں، جو نئے چیلنجز کو جنم دیتے ہیں اور جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک عدم استحکام کو ہوا دیتے ہیں۔

ظاہر کاظمی نے پراکسی اور محدود روایتی جنگ کا جوہری کشیدگی کے خطرے کے عوامل کے طور پر حوالہ دیا، جس سے خطے کی سلامتی کا ڈھانچہ نازک ہو رہا ہے۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں