ہومتازہ ترینمسلم دنیا کی تشنگی

مسلم دنیا کی تشنگی

مسلم دنیا کی تشنگی


شاہ نواز سیال

فیصلہ اب مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اگر وہ نشاۃ ثانیہ کی جانب قدم بڑھانا چاہتے ہیں تو مکمل طور پراپنا احتساب کرنا ہوگا ,اسلام دنیا کا جدید مذہب ہے اب اسلام کو نئے سائنسی رجحان سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام دراصل عقل پسندی کا مذہب ہے اور فطرت کےعین مطابق ہے۔ اسلام کو نئے عالمی نظام سے ہم آہنگ نہ ہونے دینا اور مغربی علوم سے اپنے آپ کو دور رکھنا ملت اسلامیہ کے لئے زہر قاتل ثابت ہوا ہے,اس کے ذمہ دار مسلم ممالک کے ذمہ دار لوگ ہیں, اب جن کی آوازیں بے اثر دکھائی دیتی ہیں, مٹھی بھر لوگ ایٹم بم بارش کی طرح برسا رہے ہیں –
یورپ تاریکیوں میں کئی صدیوں تک مبتلا رہا اور وہ صرف اس بنا پر کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں سائنسی اعتبار سے بہت پیچھے تھا۔ تعلیم اور علم بہ معنی سائنس کا رشتہ معاشی ترقی سے براہ راست جڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا معاشی اعتبار سے مسلم دنیا کے متعدد ممالک میں غربت وافلاس کی حالت نہایت افسوسناک ہے۔

ڈیوڈ کینتھ لکھتا ہے کہ:

’’افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمان اپنی حالت زار کو ڈوائن ول یعنی اللہ کی مرضی سے تعبیر کرتے ہیں جو یقیناً غیر اسلامی رویہ ہے‘‘۔

اکیسویں صدی کے اس دور میں اسلامی اور مغربی معاشرہ کے درمیان کسی جنگ یا معرکہ آرائی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اسلامی معاشرہ کو اپنی گذشتہ روش پر آنا ہوگا تاکہ مسلم دنیا اور مغربی دنیا کے درمیان علمی اور معاشی نابرابری کو ختم کیا جاسکے اور مسلمانوں کےاستحصال کو روکا جاسکے۔

تم اسے بیگانہ رکھو عالمِ کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات

انیسویں صدی کی ذلت ورسوائی کے باوجود مسلم دنیا بیسوی صدی میں بھی گہری نیند میں ڈوبی رہی اور علمی ومعاشی دوڑ میں دوسری قوموں سے کہیں پیچھے رہ گئی۔
١٩٨٠ کے عالمی سروے کے مطابق مسلم دنیا کی اوسط خواندگی ٣٠ فیصد سے کم تھی
یہی وجہ رہی ذہنی پسماندگی, معاشی پسماندگی, ٹیکنالوجی کے شعبہ جات میں کوسوں دور رہے مغربی دنیا سے,ترقی یافتہ قوموں سے, آج ہماری نسلیں سارا خمیازہ بھگت رہی ہیں ۔ خیر خوش قسمتی سے اکیسویں صدی میں بیشتر مسلم دنیا میں علم بہ معنی تعلیم کی جانب مناسب قدم اٹھائے گئے ہیں۔
سال ٢٠٢٢ کے ایک عالمی سروے میں بتایا گیا ہے کہ مسلم دنیا کے ٢٣ ممالک نے٩٠ فیصد  سے زیادہ خواندگی حاصل کر لی ہے۔
یہ ممالک اپنے جی۔ڈی۔پی کا ٤ سے٩  فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں ۔ ان میں سر فہرست آذربا ئیجان  (١٠٠   فیصد ) ، سعودی عرب  (٩٨  فیصد )،ترکی (٩٨ فیصد )،  قطر(٩٨ فیصد )، یو۔اے۔ای (٩٨ فیصد )، اردن (٩٨ فیصد )، برونائی(٩٨    فیصد )اور انڈونیشیا(٩٦   فیصد )ہیں ۔   افریقہ کے غریب مسلم  ملکوں اور ایشیا کے چند  زیادہ آبادی  والے مسلم ممالک کی کم خواندگی کی بنا پراسلامی دنیا کی اوسط خواندگی عالمی اوسط سےاب بھی کم ہے جو لمحہ فکریہ ہے ۔
بہرحال  افسوس  اس بات کا ہے کہ سائنسی تحقیق (آر اینڈ ڈی) پر  مناسب توجہ نہیں کی گئی ہے۔   ساری اسلامی دنیا(آ بادی ١٨٠ کروڑ)کل  ٧٥ بلین  ڈالر سائنسی تحقیق پرخرچ کرتی ہے جبکہ   امریکہ کی آبادی (آ بادی٣٢ کروڑ)  ٦٦٠ بلین ڈالر سائنسی تحقیقات (  آر اینڈ ڈی ) خرچ کرتاہے۔ جاپان (آبادی ١٣ کروڑ)١٩٤ بلین ڈالر جرمنی(آبادی٨ کروڑ )١٤٨ بلین ڈالر اور جنوبی کوریا  (آبادی٥ کروڑ )١٠٥  بلین ڈالرخرچ کرتے ہیں۔یہ اعداد و شمار  بیان کرتے ہیں مسلم ممالک اور سائنسی اعتبار  سے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق کو۔
   بہر حال یہ امر کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ سعودی عرب ,ترکی,ملیشیا اور قطر  وغیرہ نے  (آر اینڈ ڈی)  پر اپنے اخراجات جلد ہی تین گنا بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جو یقیناً ایک خوش آئند  اعلان ہے۔

بہر کیف مسلم قوم کو سائنس کے میدان میں اپنا رویہ بدلنا ہوگا اور ماضی کی اس سائنسی و فکری دور پرواپس آنا ہو گاجس کو ہم زریں دورمانتے ہیں او اس پر  فخر کرتے ہیں۔

دنیا کے کچھ اہم دانشوروں کے نظریات :
جو مسلمانوں کے زوال پر اپنے دردوغم، نیز حیرت کا اظہار کرتے ہیں اور اس عبرت انگیز دور سے نکلنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔دراصل ان نظریات کی روشنی  میں مندرجہ  بالا  خیالات  کا اظہار کیا گیا ہے۔

جمال الدین افغانی:

ترجمہ ۔صرف اور صرف سائنسی ترقی ہی مسلمانوں کے پچھڑے پن کو دور کرسکتی ہے موجودہ سائنس ایک عالمی تصورہے اس کو کسی قوم یا تہذیب سے نیز مذہب سے جوڑ دینا غلط ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے علماء نے سائنس کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور ایک کا نام اسلامی سائنس رکھ دیا اور دوسرے کا یورپی سائنس اور اس طرح یورپی سائنس کے دشمن ہوگئے دراصل انہوں نے دشمنی مذہب سے کی اور اس کے نتیجہ میں مشرق کے اسلامی ملکوں میں سائنسی تحریک پر روک لگادی یہ ہماری تباہی کا باعث بنا۔ : ’’وہی مسلمان اسلام کے محافظ ہوسکتے ہیں جوعلوم ومعارف مختلفہ سے آشنا اور واقف ہوں‘‘۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی:

’’ دور انحطاطِ اسلامی میں عبقری صلاحیت کے لوگ (جینیس) بہت کم نظر آنے لگے۔زیادہ تر علماء اورمفکرین نے علوم مابعد الطبعیات (میٹا فزکس) کی طرف توجہ زیادہ کی اور علوم طبعیہ اور عملی اورنتیجہ خیز فنون کی طرف توجہ کم کی۔

ان مباحث میں جن کا دنیا وآخرت میں کوئی فائدہ نہ تھا صدیوں تک درد سری ودیدہ ریزی کرتے رہے اور ان علوم اورتجربوں کی طرف توجہ نہ کی جوان کے لئے کائنات کی طبعی قوتیں مسخرکردیتے اوراسلام کے مادی اور روحانی تسلط کو تمام عالم پر (پھر سے) قائم کردیتے‘‘ : ’’مسلمانوں نے وقت کی قدرنہ کی اور صدیاں ضائع کردیں (مباحث میں) برخلاف اس کے یورپی قوموں نے وقت کی قدر کی اورصدیوں کی مسافت برسوں میں طے کی‘‘ : ’’مسلمان اپنی علمی روش بھول گیا اور روایتی ذہنیت کاشکار ہوگیا اوراس طرح سائنس اور ٹیکنا لوجی میں پیچھے رہ گیا اور مغرب نے اسے غلام بنادیا‘‘

سولہویں اور سترہویں صدی کا عہد تاریخ انسانی کا اہم دور ہے ، ۔ اس دور میں یورپ اپنی لمبی نیند سے بیدار ہوا تھا اور ایک جوش وجنون کی حالت میں اٹھ کر غفلت اورجہالت کی طویل زمانے کی تلافی کرنا چاہتا تھا  ۔وہ ہر شعبہ حیات میں ترقی کررہا تھا طبعی قوتوں کو مسخر کررہا تھا، ہر علم وفن میں ان کی فتوحات اور انکشافات جاری تھے، اس مختصر مدت میں ان کے یہاں عظیم محقق -موجد اور مجتہد پیدا ہوئے،  مسلمانوں کا تنزل صرف حکمت وعلوم نظریہ اور صنعت وحرفت میں ہی نہ تھا بلکہ یہ ایک ہمہ گیر اور عمومی انحطاط تھا، جومسلمانوں پر پورے طور پر محیط تھا- ’’
اگرعالم اسلامی کی خواہش ہے کہ نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرے اور غلامی سے آزاد ہو تو اسے تعلیمی خود مختاری اور علمی لیڈر شپ حاصل کرنا ہوگا، یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس کیلئے علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کرنا ہوگا جس کے سربراہ عصری علوم سے واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں اس مقصد کیلئےایسے ماہرین فن کا انتخاب کرنا ہوگا، جو ہر فن میں دستگاہ رکھتے ہوں-

’’اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید وبامقصد طریقہ پر سائنس وصنعت کو فروغ دیں اور علمی وسائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی وعلمی تحقیقات کا جائزہ لیں اوران سے استفادہ کرکے تحقیق وجستجو اور تجربہ ومشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد:

غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہوچکی ہیں ۔اب خدا کے لئے بستر مد ہو شی سے سرا ٹھا کر دیکھئے کہ آفتا ب کہاں پہنچ چکا ہے آپ کے ہمسفر کہاں تک پہنچ گئے ہیں اور آپ کہاں پڑ ے ہو ئے ہیں ۔‘‘(غبا ر خاطر ،ابو الکلا م آزا د )۔۔۔’’اگر تعلیم انسان کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ زمین پر بسنے والے اس پر عمل کریں تو اسی حالت میں اسی صورت میں پیش کرو کہ وہ اسے دیکھ کر گھبرا نہ جائیں اور اگر اس لئے ہے کہ اس پر فرشتے عمل کریں تو تمہیں اختیار ہے ۔ آج سے ایک سو برس پہلے ہم نے اس چیز کو محسو س کیا ہوتا اور اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا کہ اب دنیا کہاں سے کہاں آگئی ہے اور اس کے بارے میں کیا تبدیلی ہمیں کرنا ہے لیکن اگر سو برس پہلے ہم نے تبدیلی نہیں کی تو کم ازکم یہ تبدیلی اب ہم کو کرلینی چاہئے , یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ جو فلسفہ آج پڑھانا ہے وہ زمانہ کے مسائل ہیں ۔اگر آپ یہ نہیں کرتے تو آپ زمانہ سے واقف نہیں ہیں بلکہ آپ زمانے سے لڑ رہے ہیں‘‘(خطبات آزاد)

  سید  سلیمان ندوی : 

”جدید علوم سے بے خبر علماء اسلام کی سچی خدمت انجام نہیں دے سکتے ہیں، آج ہم ایک تماشائی بن کر زندہ نہیں رہ سکتے ہیں‘‘۔

  عبدالرحمن: 

وزیر اعظم ۔( ملیشیا ):لازم ہے کہ آج کی دنیا میں مسلمان غیر عقلی عقائد کوخیر بادکرکے نئے چیلنج کامقابلہ کرنے کے لئے اسلامی طریقہ اپنائے‘‘۔

  علامہ امیر شکیب ارسلان : 

اسلام دشمن طاقتیں پروپگینڈا کرتی ہیں کہ اسلام موجودہ تمدن کے ساتھ چلنے کا اہل نہیں جسکی اصل وجہ وہ تنگ خیال لوگ ہیں جنکے ذاتی عقا ئد اس نئی تہذیب و تمدن کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ موجودہ ترقی کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں” ۔

سر سید احمد خان : 

ہم  اسلام کو جدید سائنس کے ساتھ  آہنگ کریں۔ فطرت سے مطابقت اسلام کا جوہر ہے۔ ہمیں تفتیش اور تحقیق کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی مغربی تعلیم سے بیزاری پسماندگی کی وجہ ہے۔

 عبداللہ بن احمد بدوی:

عمرو موسی:(مصر) 

جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ سائنس اور ٹیکنا لوجی کا دور ہے اور ہم سے انتھک محنت اورپیہم عمل کا طلبگار ہے تاکہ ہم بھی اس کی رفتار کا ساتھ دے سکیں۔ لہٰذا ناگزیر ہے کہ ہم اسلام کے بنیادی اصولوں کو تھامے رکھیں اور ذیلی فروعیات میں اپنے قیمتی وقت کوضائع نہ کریں۔ دنیا بڑی تیز رفتاری سے رواں دواں ہے۔ ہمیں اس کے علوم وفنون سے دستگاہ پیداکرنا ہے۔ (سمینار۔سید سلیمان ندوی بھوپال۔ ۱۹۸۴ء)

سید حسین نصر: (ایران)

ترجمہ -قرآن کے بنیادی مفروضوں اور عقیدوں نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی برتاؤ نے اسلامی ثقافت اور سائنسی تہذیب کے ترقیات کے لئے بنیادیں فراہم کیں , قرآنی علمیات انسان کوکٹر عقیدوں کے بوجھ اور سماج مخالف نفسیاتی اور معجزاتی تجربات سے چھٹکارا دلاتی ہے قرآن نے جب انسانی تصورات کوجھنجھوڑا تووہ تمام رکاوٹیں جنہوں نے انسانی تقاضوں کی روح اور اذہان کودبوچ رکھا تھا سب کے سب بہہ گئیں اور سائنس، فلسفہ، نیز ثقافت کا ’’اصل وجود‘‘ عمل میں آیا-‘    :’’عالم اسلام میں سائنس اور ٹیکنا لوجی کی زرخیزی اصلیت اور خلافیت سولہویں صدی تک باقی رہی اس کا انحطاط سترہویں صدی اور اٹھارویں صدی میں شروع ہواجب ریاضی اوردوسرے ترقی یافتہ مضامین کو مدرسوں کے نصاب سے خارج کردیا گیا-

سابق وزیر اعظم مہاتیرمحمد:

ترجمہ :مسلمان صنعتی انقلاب میں مسیحی ملکوں سے بچھڑتے چلےجارہے ہیں اور ہم لباس وزبان جیسے جزئیات میں الجھے رہتے ہیں۔ سائنسی نشاط ِثانیہ کے بغیر اسلام کا احیا ممکن نہیں ہے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سائنسی علوم کی روشنی کو ایک مرتبہ پھر سے اجاگر کریں اور اجتہاد کا راستہ اختیار کریں(اخباری رپورٹ دسمبر٢٠٠٣) ۔

 محمد حسین ہیکل:(مصر )
ترجمہ :اسلامی معاشرہ کی بنیاد جس علم و حکمت اور عقلیت پسندی پر تھی اسی  کو مغرب نے آج اپنایا ہے۔

براک اوباما :(سابق صدر امریکہ) یہ اسلام ہی تھا جس نے کئی صدیوں تک  علم  کی روشنی ڈالی اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کی راہ ہموار کی۔ (٤ جون ٢٠٠٩ قاہرہ میں تقریر)

اے ۰بوسانی:  ( روم، اسلامی اسکالر): یہ سچ ہے کہ قرون وسطیٰ کے دوران مسلم دنیا کو کم و بیش اب امریکہ کی طرح سمجھا جاتا تھا، یعنی وہ دنیا جہاں کسی کو سائنس میں کامل ہونے کے لیے جانا پڑتا تھا۔

Facebook Comments Box
انٹرنیشنل

212 تبصرے

  1. Levitra 10 mg best price Levitra 20 mg for sale or Levitra 20 mg for sale
    http://www.eurohockey.com/multimedia/photo/1388-2016-pan-american-tournament.html.html?url_back=http://levitrav.store/ Vardenafil online prescription
    [url=https://www.google.gp/url?sa=t&url=https://levitrav.store]Levitra 20 mg for sale[/url] Levitra online USA fast and [url=http://ckxken.synology.me/discuz/home.php?mod=space&uid=26399]Levitra 20 mg for sale[/url] Buy Levitra 20mg online

  2. buy amoxicillin online with paypal amoxicillin without a doctors prescription or over the counter amoxicillin canada
    https://www.google.lk/url?q=https://amoxila.pro amoxicillin tablet 500mg
    [url=https://communities.bmc.com/external-link.jspa?url=http://amoxila.pro]can you purchase amoxicillin online[/url] generic amoxicillin 500mg and [url=http://xn--0lq70ey8yz1b.com/home.php?mod=space&uid=34208]how to buy amoxicillin online[/url] amoxicillin 500mg over the counter

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں